Sunday, December 20, 2009

Sunday, March 8, 2009

ڈاکٹراسد فیض : کتاب“ اسلام آباد

ڈاکٹراسد فیض:: کتاب“ اسلام آباد

افسانہ نگار محمد حمید شاہدسے مکالمہ



اسد فیض:آپ کب ‘ کہاں پیدا ہوئے اور کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
محمد حمید شاہد: میری تاریخِ پیدائش تیئس مارچ انیس سو ستاون ہے اور میں ڈسٹرکٹ اٹک کے ایک تحصیلی ہیڈ کوارٹر پنڈی گھیب میں پیدا ہوا ۔وہیں ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی ۔پھر فیصل آباد چلاگیا۔زرعی یونیورسٹی سے بقول سید ضمیر جعفری مرحوم زراعت اور بستانیت کا فاضل ہوا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایف ای ایل کا سٹوڈنٹ بھی ہوا مگر آغاز ہی میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کہ والد صاحب شدید علیل تھے۔واپس پنڈی گھیب آ گیا۔۳۸۹۱ میںوالد صاحب کا انتقال ہو گیا تو بینک کی ملازمت اختیار کر لی۔ پیشہ ورانہ تعلیم کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا ۔بینکنگ ڈپلومہ کاا متحان اور کچھ کمپیوٹر کورسسز‘ یہ تعلیم کا سلسلہ تو ایسا ہے کہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ‘سو جاری ہے۔
اسد فیض:کن اداروں میں ملازمت کی؟
محمد حمید شاہد:جی میں بتا چکا ہوں کہ 84 ءمیں بینک جوائن کر لیا تھا ۔ اسی میں مختلف حیثیتوں میں فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ چکوال‘ جنڈ‘ کہوٹہ‘ مری‘ اسلام آباد کی برانچوں اور ریجنل آفسز میں کام کرتا رہا آج کل اسی کے ہیڈ آفس‘سلام آباد میںریکوری ڈیپارٹمنٹ میں بطور سینئر آفیسر خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
اسد فیض: افسانہ نگاری کا آغاز کب کیا اور پہلا افسانہ کس جریدے میں طبع ہوا؟
محمد حمید شاہد: اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کی طرف آﺅں مجھے یہ بتا دینا چاہیے کہ میرے لٹریچر کے قریب ترآنے کا دورانیہ وہی بنتا ہے جب میں فیصل آباد میں تھا۔ وہاں کے ادبی حلقوں کی نشستوں اور باذوق احباب کی صحبت کے سبب میرے خون میں ادبی جراثیم داخل ہوگئے۔ پڑھنے کی طرف تو میں پہلے ہی راغب تھاتاہم ادب کی باقاعدہ اصناف کی طرف رغبت یہیں آ کر بڑھی۔فیصل آباد ہی میں تھا جب میں نے پہلی کتاب مکمل کی‘ پہلا انشائیہ لکھااورپہلا افسانہ شائع ہوا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پہلا افسانے کا نام ”ماسٹر پیس “ تھا جو پہلی بار کسی ادبی جریدے میں شائع نہیں ہوا تھا۔ تاہم یہی افسانہ بعد میں ”سیارہ “ لاہور میں چھپا۔ میری پہلی تحریر نوائے وقت ‘ راولپنڈی میں شائع ہوئی تھی۔ تاہم میرے افسانے اور دوسری تحریریں جن جرائد میں شائع ہوتی رہےں ان مےں ”فنون“ لاہور۔” اوراق “ سرگودھا۔”شب خون “ الہ آباد۔ ”مکالمہ“ کراچی۔ ” ”ماہ نو“ لاہور۔ دریافت “الہ آباد۔” آئندہ “کراچی۔ ”دنیازاد“ کراچی۔”آفاق“ راولپنڈی‘ ۔”ادبیات“ اسلام آباد۔ ”کتاب“ اسلام آباد۔ ”جدید ادب “ جرمنی۔ ”ادب عالیہ “وہاڑی۔ ”عالمی اردو ادب “دہلی۔ ”تخلیقی ادب “ اسلام آباد ‘ ”حریم ادب“ بورے والا‘ ”منزل“ اسلام آباد‘ ”تادیب“ راولپنڈی اور دوسرے ادبی جریدے اور کتابی سلسلے شامل ہیں۔
اسد فیض: اب تک افسانوں کے کتنے مجموعے شائع ہو چکے ہیں؟
محمد حمید شاہد: جی‘ میرے افسانوں کے اب تک تین مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ پہلا ”بند آنکھوں سے پرے“ 1994ءمیں ”الحمد “لا ہور سے‘ دوسرا ”جنم جہنم“ 1998ءمیں ”استعارہ “ اسلام آباد اور تیسرا”مرگ زار“ 2004ءمیں ”اکادمی بازیافت“ کراچی سے۔ میرے افسانوں کا سرائیکی ترجمے پر مشتمل انتخاب ”پارو“ سرائیکی ادبی بورڈ ملتان سے شائع ہو چکا ہے ۔
اسد فیض: افسانہ کی صنف کو ہی کیوںاظہار کے لیے منتخب کیا؟
محمد حمید شاہد: یہ میری مجبوری تھی ۔ میں کئی اصناف کے دروازوں پر دستک دے چکا تھا مگر میرے اندر بے چینی بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ میں اپنے تخلیقی عمل کی برتر سطح کو چھو نا چاہتا تھا ‘ ایسی اصناف جولفظوں کے عمومی استعمال سے زیادہ کا تقاضہ نہیں کرتیں یا جن میں جملوں کی ساخت‘ تجربے یا پھر مشاہدے کے انوکھے پن سے کام چلایا جا سکتا تھا‘ مجھے مطمئن نہ کر پارہی تھیں لہذا میں افسانے کی طرف چلا آیا ۔
اسد فیض: کن افسانہ نگاروں سے متاثر تھے اور غیر شعوری طور پر ان کے اثرات آپ کی تخلیقات پر متاثر ہوئے؟
محمد حمید شاہد:کچھ ہی عرصہ پہلے حلقہ ارباب ذوق ‘ راولپنڈی نے تخلیقی عمل کے حوالے سے ایک نشست منعقد کی تھی جس میں جب میں نے یہ اعتراف کیا کہ کہانی کو باطنی سطح پر برتنے کی طرف میں اس عہد کے وسیلے سے راغب ہوا تھا جب علامت نگار وں کا ہر کہیں طوطی بولتا تھا‘ تو میں نے اس پر یہ اضافہ کرنا ضروری جانا تھا کہ جب میں علامت کو کہانی کی نامیاتی وحدت بنالینے کی طرف راغب ہواتو بیانیہ کہانی کو حقارت سے دیکھنے والے اسی روایتی کہانی کے پلٹ آنے کی خبریں سنانے لگے تھے ۔ مجھے بڑے واضح میں کہنا ہے کہ میں شروع ہی سے تخلیقی عمل کے لیے بھیڑ چال اور تحریکوں کی نعرے بازی کو زہر قاتل سمجھتا آیاہوں ۔ میں افسانے کی طرف ذرا دیر سے راغب ہوا ۔ تب تک شاید کسی سے متاثر ہو کر یا کسی کے ڈھنگ میں لکھنے کا دور گزر چکا ہوتا ہے ۔ میرے سامنے ترقی پسندوں کی مثال تھی اور ان کے رد عمل میں خارج سے مکمل طور پر کٹ کر باطن گزین ہونے والے علامتیوں کی بھی ۔ یہ دونوں گروہ اوران سے پہلے گزر چکے لوگ میرے ہاں روایت کے شعور میں ضروری کانٹ پھانس کر چکے تھے ۔ میں تب تک یہ جان چکا تھا کہ تخلیق کا ایک عنصر بغاوت ہوتا ہے اور اس بغاوت کا وار تخلیق کار کے ہاں اندر اور باہر دونوں رخ پر ہو تاہے اور یہ کہ بطون میں سمٹنے یا سماج کی طرف لپکنے والی اس بغاوت کاتخلیقی عمل سے تعلق کسی منصوبہ بندی کے تحت قطعا نہیں ہوتا۔ میں نے جب حلقے کے اجلاس میں کچھ اس طرح کی باتیں کیں تو احباب نے تابڑ توڑ سوالات کیے تھے تاہم میرا اصرار تھا کہ جب میں افسانے کی طرف متوجہ ہوا اس وقت تک میں فیصلہ کر چکا تھا کہ مجھے تخلیق کے کازار میں اکیلے ہی اترنا ہے اور اس کا نتیجہ اس صورت میں نکلا کہ تخلیق کار کی حیثیت سے میں جہاں جہاں اور جتناجتنا اکیلا ہوتا چلا گیااتنا ہی میرے ہاں تخلیق ہونے والا فن پارہ عمومیت سے بچتا چلا گیا ۔ اِسی تجربے کی اَساس پر میں فیصلہ دے سکتا ہوں کہ تخلیقی عمل میں کسی سہارے اور مرعوبیت کے بغیر آگے بڑھنے سے فن کارکے ہاں اس کا اپنا وجدان اور اس کی اپنی روح جی اٹھتی ہے جو اسے تعمیم سے بچالیتی ہے ۔ علی محمد فرشی نے مجھے کریدنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کہا کہ ہر فنکار کے مدنظر کچھ پیرا ڈائمز ہوتے ہیں جن سے وہ محبت بھی کرتا ہے ۔ میرے سامنے کونسے پیرا ڈائمز تھے جنہوںنے لائٹ ہاﺅس کا کام دیا ؟۔ میں نے ایک بار پھر وضاحت کی تھی کہ میں کہانی کی طرف محض افسانہ نگار کہلوانے کے لیے نہیں آیا تھااگر ایسا ہوتا تو میں اس راہ کے ستارے نظر میں رکھ کر اپنا سفر آغاز کرتا اور آگے بڑھتا ۔ میں پہلے دوسری اصناف کی طرف متوجہ رہا ہوں ۔ اپنے تخلیقی اظہار کے لیے افسانے تک آتے آتے وہ جو دوسروں کو ماڈل بناکر سفر اختیار کرنے والا دورانیہ ہوتا ہے ‘وہ گزر چکا تھا ۔ اب میں اس تلاش میں تھا کہ مجھے جو کہنا ہے وہ کیسے کہا جائے ۔ ایسے میں ممکن ہے اوروں کے اثرات بھی لاشعوری طور پر میرے ہاں ظاہر ہوئے ہوئے ہوں مگر میں نے شعوری طور پر سب سے بچنے اور اپنے تخلیقی تجربے سے وفاداری کو ترجیح دی ہے ۔ڈاکٹر سرورکامران بولے دوسرے لکھنے والوں سے متاثر ہونا ارتقاکے Process کا حصہ ہے؟ اور مجھے کہنا پڑا‘درست مگر میں نے بہت سی دوسری اصناف کو برتنے بعد افسانے کو اپنے لیے بطور تخلیقی اظہار کی صنف منتخب کیا تھا اِس لیے اِس میں کسی اور کے تبتع کی گنجائش بہت کم نکلتی ہے۔
اسد فیض: آپ ایک افسانہ کتنے عرصے میں لکھتے ہیں اور اس کا آغاز کیسے کرتے ہیں ؟
محمد حمید شاہد: افسانہ لکھنے کا دورانیہ میں اپنے تئیں گھٹا بڑھا نہیں سکتا کہ بہت ہی لطیف سطحوں پر یہ میرے باطن میں وقوع پذیر ہونے والے تخلیقی عمل سے متعین ہوتا ہے ۔ جب تک اس پراسرار تخلیقی عمل کا سلسلہ اندر ہی اندر مکمل نہیں ہوجاتا میں افسانہ لکھنے بیٹھتا ہی نہیں اور جونہی مجھے اندر سے تخلیقی عمل کی تکمیل کا اشارہ ملتا ہے میں اسے لکھنے بیٹھ جاتا ہوں پھر اس کے بعد اسے لکھ لینے میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں لگتا ۔ تاہم یہاں واضح کردوں کہ لکھتے ہوئے چوں کہ میں تخلیقی وجود کی برتر اور لطیف سطح سے اس سارے پراسس سے جڑا ہوا ہوتا ہوں لہذا لکھتے ہوئے میں ایک عجب سی ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہتا ہوں تاہم لکھ چکنے کے بعد اعصاب معمول پر آجاتے ہیں ۔
اسد فیض: افسانہ آپ کے نزدیک کیا ہے؟
محمد حمید شاہد: زندگی کی تخلیق نو کے علاوہ افسانہ اور کیا ہو سکتا ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے تخلیقی عمل کو اس کی نزاکتوں سمیت سمجھنا لازم ہے میں مسلسل کہتا آیا ہوں کہ تخلیقی عمل کے بڑے مظاہر میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کو لیا جا سکتا ہے اور ان کا تعلق خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ باطنی امیج سے ہوتا ہے جو اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنے حیطہءاکتشاف میں لے لینے کی سکت رکھتا ہے۔ اور یہ کہ تخلیقیت کا بھید یہی ہے کہ متن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے اس باطنی امیج کے روشن کناروں سے جا کر جڑ جاتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ انسان کا شعور وجدان اور ذہانت میں بٹا ہوتا ہے ۔ تخلیقی عمل کے دوران ان دونوں کی دو مختلف اورمتضاد ابعاد پر موجودگی بہت اہم ہو جاتی ہے اور وہ بھی یکساں وزن اوروقعت کے ساتھ۔تخلیقی عمل کے دوران تخلیق کار اپنی تخلیقی ترکیب سے ہم آہنگ دنیا سے نبرد آزما رہتا ہے۔اسے مادے اورمابعدالطبعیا ت کی بھید بھری دنیا سے ایک ساتھ نبٹنا ہوتا ہے۔ جو لوگ تخلیقی عمل کو محض جملہ کاری یا لفظ بازی سمجھتے ہیں وہ واقعہ تو لکھ سکتے ہیں ‘ کہانی بھی ترتیب دے لیتے ہیں مگراسے افسانہ نہیں بنا سکتے۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے ہاں افسانے کا جو ہر باطنی امیج کے وجدان سے جڑنے کے بعد کسی صورت میں ڈھلتا ہے ۔
اسد فیض: ۰۶ءمیں جدیدیت کے زیر افسانہ میں تبدیلیوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد: ۰۶ءکی دہائی کے افسانے کا بہت بڑا جواز ۸۵۹۱ءکے مارشل لا کی وجہ سے سیاسی وفکری خلا بتایا جاتا ہے ۔ اس افسانے کے حامیوں کے نزدیک ان کے سامنے سیاسی ابتری کا زمانہ تھا جس نے ایک قومی بے سمتی کو جنم دیا تھا۔ ان ہی کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں جو نسل سامنے آئی اس نے خود کو اعلانیہ غیر نظریاتی کہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی پسند تحریک کی وجہ سے خارجی حقیقت نگاری کا جو رجحان پروان چڑھا تھا‘ وہ داخل کی طرف مڑ گیا ۔کردار سائے بن کر بے نام ہوئے اور ٹھوس واقعات کی بجائے خیال اور آئیڈیا کہانی میں اہم ہوئے۔ یوں افسانے میں علامت وتجرید نے پرانے ڈھانچے کو یکسر بدل دیا۔ اسی افسانے کے ایک اور مبلغ نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو تمام عمر ایک ہی افسانہ لکھتے رہے تھے جس کا موضوع جبر کے خلاف احتجاج تھا۔ یوں دیکھیں تو سیاسی جبر علامت اور تجرید کو لے کر آیا ۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سیاسی جبر ہی علامتی افسانے کا جواز تھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ساٹھ کی دہائی والوں میں سے محض چند زبان اور اظہار کی تبدیلی کے تقاضوں کو تخلیقی سطح پر برتنے پر قادر ہو سکے تھے ۔ یہی سبب ہے کہ اس زمانے میں فیشن کے طور پر علامت زیادہ استعمال ہوئی اور افسانے کی نامیاتی وحدت میں رچ بس کر اس کی کیمسٹری بدل دینے والی علامت خال خال ہی ملتی ہے ۔یہیں مجھے اپنا یہ موقف بھی دہرا لینے دیجئے کہ تخلیقی عمل میں متن کی سطح بھی اپنے باطن کی طرح اپنی کل کے ساتھ ایک متناسب آہنگ سے جڑی ہوتی ہے۔ اسی تناسب کا مرکب فن پارے کے حسن کا مظہر بنتا ہے ۔یہ محض مغالطے کا شاخسانہ ہے کہ کردار یا واقعہ اپنی مکمل صورت کے ساتھ علامت اور تمثیل کی سطح کو نہیں پہنچ سکتا اور یہ بھی انتہائی گمراہ کن بات ہے کہ کردار اور کہانی سے تخلیقی سطح پروفا کے رشتے میں جڑی ہوئی زبان لسانی سطح پر علامتی مفاہیم ادا کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے۔ میرے نزدیک تو بیانیہ توڑ توڑ کر علامتوں کی پھانسیں لگانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ایسا کرنا تخلیقی عمل میں رخنے ڈالنے کے مترادف ہو جاتا ہے ۔
اسد فیض: کیا علامتی اور تجریدی افسانے جیسے تجربات نے افسانے کی مقبولیت میں اضافہ کیا ؟
محمد حمید شاہد:صاحب ‘ آپ کاسوال مجھے الجھا رہاہے ۔ پہلے مجھے اس الجھن سے نکلنے دیجئے ۔ دیکھیے ادب کی تخلیق کا وظیفہ کوئی سماجی سرگرمی نہیں ہے جس کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ عام لوگوں میں اس کی مقبولیت اور غیرمقبول ہو جانے سے لگایا جا سکے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ ادب عام لوگوں یا عام قارئین کا مسئلہ نہیں صاحب ذوق قاری کا مسئلہ ہے ۔ اور لکھنے والے کو سب کے لیے لکھنا ہی نہیں چاہیے ورنہ وہ مارا جائے گا ۔ اب اس سے یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو عام قارئین میں انتہائی غیر مقبول ہوگا وہی عظیم ادیب بھی ہوگا۔ میں سرے سے ادیبوں اورادب پاروں کے پرکھنے کے ایسے معیاروں کو مانتا ہی نہیں ہوں ۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے تجربے میں آچکا ہے کہ کسی ایک عہد کا نامقبول ادب پارہ یا مردود ادیب کسی اور عہد میں مقبول اور محبوب ہوگیا ہے اور وہ جو کسی عہد میں آنکھوں کا تارا تھا طاق نسیاں اس کا مقدر ٹھہرا۔ اب رہی بات تجرید اور علامت کے تجربے کی‘ تو اس باب میں میں یہ کہہ چکا ہوں کہ اسے تخلیقی تجربے کے اندر سے برآمد ہونا چاہیے تھا مگر بیشتر لکھنے والوں نے اپنی تحریروں میںالگ سے پیوند کاری کے ذریعے اسے تماشہ بنا لیا تھا۔اور یہ اتنا آسان نسخہ تھا کہ اسے لکھنے والوں کی ایک بھیڑ میسر آگئی تھی مگر طرفگی دیکھئے کہ وہ خود ہی اوب اوب کر ایک طرف ہوتے چلے گئے ۔
اسد فیض: شاعری میں تو علامتوں کو قاری نے قبول کیا لیکن افسانہ میں اس کے خلاف رد عمل ہوا کیوں؟
محمد حمید شاہد:جی‘ آپ کا تجزیہ کسی حد تک درست مانا جاسکتا ہے ۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شاعری اور کہانی کے الگ الگ تخلیقی تقاضے ہیں ۔ وہ لوگ جو فکشن کو شاعری کی طرح برتنے لگے تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ نظم میں علامت‘ استعارہ اور امیج برتنے کا جو سلیقہ ہے وہ فکشن میں آکر اپنی ماند کھو دیتا ہے ۔اس باب میں شمس الرحمن فاروقی نے ساٹھ اور ستر کی دہائی والوں کے بے چہرہ کرداروں کے حوالے سے درست کہا تھاکہ وہ انہیں ایسی صفات کے ذریعے مشخص کرتے ہےں جو ان کرداروں کو کسی طبقے یا جگہ یا قوم سے زیادہ جسمانی یا ذہنی کیفیات کے ذریعے تقریباً دیو مالائی فضا سے متعلق کر دیتے ہیں اور یہ کہ ان کرداروں سے خط مستقیم کے بجائے دائرہ بنتا ہے ۔ ان کے ہاں نوجوان ‘ بوڑھا ‘ لڑکی ‘ ہم ‘وہ ‘لڑکا‘ سپاہی ‘ بھائی‘ بہن‘ ماں اور اس طرح کے الفاظ کرداروں کو ایک دوسرے سے ممیز کرتے ہیں۔ علامت نگاروں کے ہاں خرابی یہ در آئی تھی کہ وہ اپنے کرداروں کو علامت تصور کرنے لگے تھے اور کرداروں کو اپنے بنیادی وظیفے کی ادائیگی سے روک دیا تھا۔ جب کہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فکشن کے وہ تمام کردار بھی جو نام یا شناخت پاتے ہیں اور کہانی کے اندر اپنے مربوط عمل سے معنی پاتے ہیں وہ اپنے علامتی کردار کو زیادہ خوبی سے ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ فی الاصل ایک جینوئن تخلیق کارافسانہ لکھتے ہوئے اپنے عام کرداروں کوبھی عام نہیں رہنے دیتا وہ انہیں ان جیسے لاکھوں کرداروں کا نمائندہ بنا دیتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہی کردار علامت کا فریضہ بھی نبھانے لگتے ہیں ۔
اسد فیض: جدیدیت کے زیر اثر اردو افسانے نے ترقی پسند تحریک کے دوران جنم لینے والے افسانہ نگاروں جیسا کوئی بڑا افسانہ نگار پیدا نہیں کیا؟
محمد حمید شاہد: یہاں پھر آپ کے سوال کی ترکیب اصل صورت حال کی تفہیم میں رخنے ڈال رہی ہے۔ دیکھئے ترقی پسندی کی افادیت ‘ سہولتیں اور برکات اپنی جگہ مگر جب آپ یہ تاثر دینا چاہیں گے کہ ترقی پسند تحریک نے بڑے افسانہ نگار پیدا کیے تو یہ بات خلاف واقعہ ہوگی۔میں جان سکتا ہوں کہ جب آپ نے یہ سوال ترتیب دیا تو آپ کی نظر میں کرشن چندر‘ بیدی‘ اور منٹو کے نام ہوں گے بظاہر جیسا آپ نے سوچا ویسا ہی لگتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ یہی سچ نہیں ہے۔ میں کرشن چندر کے افسانوں کو پریم چند کی قائم کردہ روش سے ہٹا ہوا نہیں پاتا ۔ تاہم میری نظر میںوہ یوں کامیاب اور عمدہ افسانہ نگار بنتا ہے کہ اس نے اکثر و بیشتر اپنے تخلیقی تجربے سے وفاداری کو مقدم جانا ہے۔ بیدی نے احمد سلیم اور سُکھ بیر سے ایک مکالمے کے دوران خود کہا تھا ‘جو کچھ اس کے دماغ میں آیا اس نے ایمان داری سے لکھا۔ ایک اور انٹرویو میں ‘جو غالبا بیدی سے یونس اگاسکر اور افتخار امام صدیقی نے لیا تھا‘ بیدی نے کہا تھا کہ جب اس کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تھاتب تک تو وہ ترقی پسند تحریک کو جانتا بھی نہیں تھا۔اسے تو بتایا گیا تھا کہ وہ ترقی پسند ہے۔ بیدی کا کہنا تھا کہ ترقی پسندوں نے اسے اور اس نے ترقی پسندوں کو فائدہ پہنچایا۔ رہ گیا منٹو ‘ توخود ترقی پسندوں نے منٹو کے ساتھ جو کیا وہ کس کی نظر سے پو شیدہ ہے۔ باقی ترقی پسندوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ اور اب جب کہ بہت سارے ترقی پسند روشن خیال اور سامراج پسند این جی اوز کے پیارے ہوگئے ہیں تو ادیبوں کی ساری ترقی پسندی ایک تماشہ دکھائی دینے لگی ہے۔ یہاں مجھے بیدی کا کہا دہرانا ہے کہ ترقی پسند تحریک ایک سیاسی تحریک تھی ۔پارٹی لین پر ادب کی تخلیق کا مطالبہ کرنے والی پارٹی۔ اس زمانے میں اس پارٹی کا زور تھا تو اچھا لکھنے والے بھی اس کے ساتھ ہو لیے تھے مگر جلد ہی جینوئن لکھنے والوں نے پارٹی ڈکٹیشن کو جھٹک کر اپنے تخلیقی تجربے سے وفاداری کو مقدم جانا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ادب اجتماعی پیداواری سرگرمی نہیں ہے اس کارزار میں سب کو تنہا ہو کر اترنا ہوتا ہے ۔ تو یوں ہے کہ ترقی پسندوں کے زمانے میں جو جتنا تنہا ہوا تخلیق کی دیوی اس پر اتنا ہی مہربان ہوئی۔ اب اگر آپ مجھ سے یہاں متفق ہو جاتے ہیں تو آپ کے سوال کے آخری ٹکڑے کا جواب انتہائی سادہ رہ جاتا ہے ‘یہی کہ فیشن میں تھوک کے حساب سے علامتیں تلاش کرنے کے مشغلے نے بہت سے عمدہ لکھ سکنے والوں کو وقت سے پہلے مار دیا تھا ۔
اسد فیض: افسانے میں بیانیہ کی واپسی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد: آپ کا سوال دل چسپ ہے ۔ افسانے میں بیانیہ کی واپسی؟ اور میر ا جی چاہتا ہے کہ قہقہہ لگاﺅں۔ صاحب ذرا اس کاکھوج لگا کر بتائیے کہ یہ نعرہ کون زور زور سے لگا رہا ہے ؟ کیا یہ وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے کل تک علامت کے نام پر خوب خوب دھول اڑائی تھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو افسانے کی زندہ روایت کے بہتے پانیوں میں سب سے زیادہ رخنے انہی منہ زور تحریکوں کے متوالوں نے ڈالے ہیں۔ یہ تحریکیں فی الحقیقت فن کاروں کے تخلیقی عمل سے جڑی ہوئی نہیں ہوتی تھیں لہذا ہر بار پسپائی ان کا مقدر ٹھہرتی رہی ہے تاہم لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تحریکیں کسی نہ کسی سطح پر کچھ نہ کچھ ہمارے تخلیقی وجود کا حصہ بنا جاتی ہیں‘یوں جیسے سیلاب کا منہ زور پانی جہاں تہذیبی امی جمی بہالے جانے کے جتن کرتا ہے وہیں جاتے جاتے اپنے پیچھے نئی زرخیزیوں کے امکانات بھی چھوڑ جاتا ہے۔ گزشتہ ربع صدی میں جو کہیں سے کہانی کے حوالے سے کسی تحریک کا غل نہیں اٹھ رہا ‘ تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اس عہد کے افسانہ نگاروں کو کوئی ایسی درفنتنی نہیں سوجھ رہی بلکہ صورت واقعہ یہ ہے کہ اب کہانی تخلیقیت کے داخلی تجربے سے جڑ گئی ہے ۔ اب رومان ہو یا حقیقت‘ احتجاج ہو یا انجذاب اور امتزاج سب ایک تخلیقی تجربے کی اکائی میں ڈھل کر فن پارہ بنتے ہیں ‘ یوں کہ الگ الگ ان کے کوئی معنی نہیں ہوتے مگر اپنی کل میں ان کا اظہار خارجی سطح پر مربوط اور مرصوص کہانی کی صورت میںظاہر ہوتا ہے جو اپنی عصریت کے ساتھ وابستہ اور پیوستہ ہوتی ہے اورباطنی سطح پر پوری کہانی ایک کل کی صورت میں ایک اوربڑی حقیقت کی علامت بن جاتی ہے ۔اب اگر آپ اسے بیانیہ کی واپسی کہتے ہیں تو مجھے کیا قہقہہ ہی لگانا چاہیے۔ یہ بات مان لینے کی ہے کہ ستر کی دہائی کے نصف آخر سے وہ نسل سامنے آچکی ہے جوردعمل کی بجائے تخلیقی تجربے سے وابستہ ہے۔ اس عہد کے افسانہ نگاروں کے ہاں نہ تو افراط ذات ہے نہ ہی زبان میںشعری رموز وعلائم کا ناورا استعمال۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فکشن کی زبان کے لیے نثر کے آہنگ پر اصرارکرتے ہےں اور اس حقیقت کو تسلیم کرکے تخلیقی عمل میں شریک ہوئے ہیں کہ اسلوب اور زبان کہانی کی کل ہی سے معنویت پاتے ہیں۔ معنیاتی گہرائی الگ سے علامت کی چیپی کے ذریعے فن پارے کا حصہ بنائی جائے تو وہ اسے بوجھل اور ناگوار بنا دیتی ہے۔ آج کا کہانی لکھنے والا جانتا ہے کہ کہانی کی فضا اور کیفیت کے بغیر افسانے کا کوئی اسلوب نہ تو جمالیاتی اقدار کا حصہ ہو سکتا ہے نہ اس میں کسی توسیع کا وسیلہ ۔ تخلیقی افسانہ نگار بیانیہ کی راست ترسیل کے پہلو بہ پہلو متن کی معنیاتی گہرائی کو ایک ساتھ متحرک رکھنے پر قادر ہے یہی سبب ہے کہ ایک نامیاتی وحدت میں ڈھلنے کے بعد اس کے افسانوں کے کردار بھی علامت بن جاتے ہیں اور اس کی فضا بھی۔
اسد فیض : کیا سیاسی موضوعات بھی افسانہ کا موضوع ہونا چاہئیں ؟
محمد حمید شاہد: میرا جواب یہ ہے صاحب ‘کہ آخر اس میں قباحت کیا ہے ؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہیں صرف اس افسانہ نگار کے ہاں موضوع بننا چاہئیے جو ان سوالات کو اپنے تخلیقی وجود کے اندر سے برامد کرتا ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے اس باب میں ایک مضمون لکھنا پڑا جو آئندہ کراچی میں چھپا ۔اس کا عنوان میں نے ”دہشت کے موسم میں کہانی کا چلن“ قائم کیا تھا اس مضمون کے لکھنے کا سبب ہی یہ تھا کہ آج کے عہد اور زندگی کو سب سے زیادہ سیاست متاثرکر رہی ہے ۔ دہشت بھی اسی سیاست کی زائدہ ہے ایسے میں کہانی کا چلن بدل جانا ایسی بات نہیں ہے جسے تعجب سے دیکھا جائے۔ جب امریکی فوجیوں کے ہتھے چڑھ کر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی عراقی عورتوں کویوں سامنے لایا گیا کہ کرب اور اذیت آپ کے اندر کی کیمسٹری بدل کر رکھ دے تو امریکیوں کے لیے قوت کے سرچشموں تک رسائی کے لیے یہ ایک سیاسی مسئلہ سہی مگر ایک تخلیق کار کے لیے انسانی مسئلہ بھی بن جاتا ہے ۔ میں نے اسی مضمون میں اصرار کے ساتھ کہا تھا کہ تخلیقی تجربہ عین مین وراثت میں نہیں ملا کرتا۔ جسے آپ روایت کہتے ہیں وہ بھی جامد نہیں ہوتی وقت دونوں میں حک و اضافہ کرتا رہتا ہے یہی کاٹ پھانس کہانی کا روپ بدل دیتی ہے ۔ اُس کہانی کاروپ ‘جو فی الاصل زندگی کی جستجو کانام ہے ۔ جی ہاں برستی موت کے اندر سے زندگی کی جستجو۔اور زندگی کیا ہے سانسوں کا آہنگ.... میری اور میرے مقابل کی سانسوں کا آہنگ.... یہی آہنگ کہانی پورے معاشرے میں تلاش کرتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے ۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں ‘ ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں ۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دکھوں سے کہیں بڑے دکھ باہر سے آتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار جو اس سب کچھ کو اپنی حسوں پرگدھوں اور چیلوںکی طرح جھپٹتے دیکھتا ہے اسے اپنے تخلیقی تجربے سے الگ کیسے رکھ سکتا ہے ۔اس کی حسیں کیوں کر معطل رہ سکتی ہیں۔ اس کا تجربہ اور اس کا مشاہدہ کیسے اس منظرنامے سے غیر متعلق ہو کر اور دم سادھ کر پڑا رہ سکتا ہے ۔تو یوں ہے بھائی کہ جب انسانی بقاءکا سوال سیاست سے جڑ کر ہمارے جگر کو پھاڑ رہا ہے تو یہ سوال افسانے کا حصہ کیوں نہیں بن سکتا۔
اسد فیض:آپ کے افسانوں کے موضوعات کیا ہیں؟
محمد حمید شاہد: وہی جوزندگی کے ہیں ۔ ممتاز مفتی نے میری کہانی کو چلتر کہا تھا‘ رنگ رس والی باہر سے کچھ اندر سے کچھ۔ احمد ندیم قاسمی نے میری کہانیوں کو انسانی زندگی کے اثبات یا نفی اور مسرت یا محرومی کی علامتیں کہا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی کو ان میں ہمہ جہت انداز اور فکر کی آئینہ داری نظر آئی ۔خالدہ حسین نے ایک خط میں میرے افسانوں کی فضا کو اپنے لیے مانوس جانا۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا خیال ہے کہ میرے ہاں اسلوب بہت اہم ہو جاتا ہے ۔ مشرف عالم ذوقی کو‘یہ جو میں نے عالمی دہشت گردی کو کہانی کا موضوع بنایا ہے اس نے متوجہ کیا ہے۔ فتح محمد ملک میرے افسانوں میں تہذیبی شناخت کے رویے کو نمایاں دیکھتے ہیں اور منشایاد فیصلہ دیتے ہیں کہ میں خیال ‘مواد اور موضوع کے ساتھ تیکنیک اور اسلوب میں تبدیلی کرتا رہتا ہوں ۔ یوں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی موضوع اور کوئی اسلوب میرے ہاں ممنوع نہیں رہا ہے ۔
اسد فیض:کوئی ایسی کہانی جو آپ لکھنا چاہتے ہوں ؟
محمد حمید شاہد: بہت سی‘ مگر میں بتا نہیں سکتا کہ وہ کہا نیاں کیا ہےں ۔ کہانی لکھنے سے پہلے میں کہانی کے پیچھے نہیں بھاگتا وہ خود مجھے لبھاتی ہے‘اپنی گرفت میں لیتی ہے اور خود ہی اپنے خال وخد بناتی ہے۔
اسد فیض: افسانہ میں کس ساخت پر آپ کی توجہ مرکوز رہتی ہے ۔ افسانے کے اسلوب یا کرداروں پر؟
محمد حمید شاہد: میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں کہ تخلیق کے میدان میں منصوبہ بندی نہیں چلتی۔ اور میرا معاملہ یہ ہے کہ میں کہانی کو اپنا رنگ ڈھنگ خود بنانے کا میں پورا پورا موقع دیتا ہوں اسے اپنے طے شدہ علاقے میں لا کر نہیں برتتا۔ جہاں وہ لے جاتی ہے وہیں مجھے جانا پڑتا۔ یوں‘ جیسے کہانی نے مجھ پر جادو کر دیا ہو اور مجھ سے میری مرضی چھین لی ہو۔ یہی سبب ہے کہ آپ کو میرے ہاں کرداری کہانیاں بھی ملیں گی اور ایسے افسانے بھی جن میں اسلوب اپنا رنگ گہرا کر لیتا ہے ۔ میرے ہاں وہ کہانیاں بھی ہیں جہاں احساس تیز دھار خنجر کے طرح جگر چیر ڈالتا ہے یا پھر موضوع ایک مختلف صورتحال سے دوچار کردیتا ہے ۔ میرے افسانوں کے دوسرے مجموعے ”جنم جہنم “ پر بات کرتے ہوئے منشایاد نے اس باب میں کہا تھاکہ ان کہانیوں کو لکھنے والا کسی خاص ڈکشن کا اسیر نہیں ہوااور صاحب اسلوب بننے کی کوشش میں خود کو محدود نہیں کیا۔ جہاں جہاں کہانی نے تقاضہ کیا خیال ‘موضوع اور تیکنیک کے ساتھ اسلوب میں تبدیلی ہوتی رہی۔ تاہم میرا اپناخیال ہے یہ کہ اسلوب افسانوں کو الگ الگ دیکھنے سے نہیں جانچا جا سکتا یہ تو جینے کے ڈھنگ جیسا ہوتا ہے اوراسے کسی بھی فن کار کے مجموعی تخلیقی کام کے اندر سے ایک مزاج کی طرح شناخت کیا جانا چاہیے۔ تو یوں ہے ڈاکٹر صاحب کہ افسانہ لکھتے ہوئے نہ تو میں محض و صرف کرداروں پر نظر رکھتا ہوں اور نہ ہی اسلوب کا ہوکر رہ جاتا ہوں مجھے ہر حال میں کہانی عزیز رہتی ہے اور اسی سے وفادار رہتا ہوں لہذا یہ اکثر میرے گمان سے بھی زیادہ مجھ پر مہربان رہی ہے ۔
اسد فیض:آپ کی نظر میں ایک اچھے افسانے کے عناصر کیا ہیں؟
محمد حمید شاہد: صاحب ‘ جس سہولت سے آپ نے یہ سوال کر دیا ہے اس سہولت سے اس کا جواب دیا نہیں جاسکتا۔سچ تو یہ ہے کہ ہر اچھے افسانے کے عناصر ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتے ہیں ۔ یہی بات افسانے کو تخلیق کے مرتبے پر فائز کرتی ہے ۔ ہیئت اور مواد کا ہر کامیاب کہانی میں الگ امتزاج بنتا ہے ۔ زبان اور ماحول کی صورت ہر بار جدا ہو جاتی ہے۔ کہیں تفصیل نگاری حسن بن کر آتی ہے اور کہیں جزئیات نگاری جبکہ بعض اوقات ان دونوں سے اجتناب کہانی کو نکھار دیتا ہے۔ کہیں آپ مو ضوع کو احساس کی سطح پر برتتے ہیں اور کہیں احساس کا لطیف اور پراسرار بہاﺅ ہی کہانی کا تقاضہ ہو جاتا ہے ۔ آپ کو ایسے بھی افسانے مل جائیں گے جہاں واقعات وقت کے بہاﺅ کے ساتھ تیر رہے ہوتے ہیں اور ایسے بھی جن میں وقت پلٹے کھاتا رہتا ہے اور واقعات اپنی ترتیب ازسر نو مرتب کرتے ہیں ۔ آپ کی نظر میں بہت سے کامیاب افسانے ہوں گے جن میں باقاعدہ ایک پلاٹ ہوتا ہے اور میری نظر کے سامنے ایسے افسانوں کی قطار لگی ہوئی ہے جن میں سرے سے پلاٹ ہے ہی نہیں ۔ کہیں کہانی مکمل ہونے کے بعد ایک شاہکار علامت کا روپ دھار لیتی ہے اور کہیں علامتوں کی بھرمار اسے بوجھل بنا دیتی ہے۔ تو یوں ہے میرے بھائی کہ کسی کامیاب افسانے کو مائیکرواسکوپ کے نیچے رکھ کر مستقل نوعیت کے اجزائے تراکیبی وضع نہیں کیے جا سکتے تاہم ہر اچھا افسانہ مکمل ہو جانے کے بعد اس بات کا اعلان ضرور کر رہا ہوتا ہے کہ اس کا تعلق انسانی صورت حال سے ہے اس کے جو بھی عناصر ہیں ان میں ایک خاص طرح کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ زبان کو بنا بنا کر نہیں لکھا گیایہ کہانی کے مجموعی مزاج کے اندر سے پھوٹی ہے ۔ وقت کے بہاﺅ میں ایک پراسراریت ہے جو واقعات کی ترتیب میں حلول کر گئی ہے ۔ کہانی جذبوں سے زیادہ احساس کی سطح کو چھوتی ہے اور یہ کہ کہانی وقت کے کسی خاص مقام پر سہم کر رک نہیں جاتی اگلے زمانوں میں جست لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اسد فیض: اگر آپ کو کہا جائے کہ عالمی افسانے کے انتخاب میں آپ اپنا کوئی افسانہ منتخب کریں تو کو نسا افسانہ آپ شامل کریں گے اور کیوں؟
محمد حمید شاہد: ایک دفعہ ن م راشد سے سوال کیا گیا تھا کہ آپ کے خیال میں آپ کی کون سی نظمیں زیادہ کامیاب ہیں ؟ انہوں نے کہاتھا ہر فنکار اپنی ہر تخلیق کو کامیاب سمجھتا مگر یہ حق پڑھنے والوں کا ہے کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق اسے کامیاب کہیں۔ ہر انسان کی پسند الگ ہوتی ہے یوں اس نے اپنی کسی ایک تخلیق کی نشاندھی کو سلیقے سے ٹال دیا تھا۔ افسانوں کے جس انتخاب کو اٹھا کر دیکھ لیں اس میں اشفاق احمد کا ”گڈریا“ شامل ہوگا مگر مجھے انتخاب کرنا پڑے تو میں اس کا افسانہ ”ہے گھوڑا“ شامل کروں گا۔ W.Somerset Mangham کو جب یہ کہا گیا کہ وہ ایسے دس ناول بتائے جو اس کی دانست میں بہترین ہو سکتے تھے تو اس نے جو فہرست بنائی تو اس پر خود بھی مطمئن نہ ہوپایا تھاوہ بار بار فہرست بناتا رہا اور ہر بار مختلف فہرست بنتی رہی حتی کہ اُ س نے سوچا کہ اگر سو پڑھے لکھے ‘مہذب اور باشعور لوگ انتخاب کرتے توکون سے ناول توجہ پا لیتے۔ یوں اس نے تین سو ناول شناخت کیے تاہم سو افراد کی طرف سے سوچتے ہوئے اس نے جو سو فہرستیں بنائی تھیں اس میں سے اس نے ایسے دس ناول منتخب کر لیے جو ہر فہرست میں جگہ پا گئے تھے ۔ صاحب‘ میں راشد کی طرح آپ کے سوال کو ٹال نہیں سکتا۔ وہ فیصلہ جو میں نے سہولت سے اشفاق احمد کے ”گڈریا “کو”ہے گھوڑا“ سے بدل کر دے دیا ہے اپنے بارے میں روا نہیں رکھ سکتاہاں یوں کرتا ہوں کہ سمرسٹ ماہم کی طرح اوروں سے مدد لے لیتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے جب میر پہلا مجموعہ ” بند آنکھوں سے پر ے“ چھپا تھا تو ”برف کا گھونسلا “ کا خوب غلغلہ اٹھا تھا۔ افسانوں کی دوسری کتاب” جنم جہنم“ آئی تو اپنے مواد اور ٹریٹمنٹ کے حوالے سے ”جنم جہنم“ ”نئی الیکٹرا “” منجھلی“ اورتماش بین جیسے افسانوں پر خوب خوب بات ہوئی اور یہ بالکل الگ الگ مزاج کے افسانے قرار دیئے گئے تھے۔ تیسرے مجموعے ”مرگ زار“ کی اشاعت پر ”سورگ میں سو ¿ر“ گانٹھ“ ”برشور“ دکھ کیسے مرتا ہے “ اور مرگ زار “ پراتنی بھر پور باتیں ہوئی ہیں کہ مجھے خود ان میں سے انتخاب کرنا پڑے تو مشکل ہو جائے گی۔ تو یوں ہے کہ شاید میںانہی میں سے ایک کو ....یا پھر ممکن ہے ان افسانوں میں سے کسی کو جن پر ابھی ڈھنگ سے بات ہونا باقی ہے ‘منتخب کرپاﺅں گا۔
اسد فیض:ہمارے ہاں فکشن کی جو تنقید لکھی جارہی ہے کیا آپ اس کے معیار سے مطمئن ہیں؟
محمد حمید شاہد:دیکھئے صاحب‘ تنقید کی مجموعی صورت حال ایسی ہے کہ آپ اس پر مطمئن نہیں ہو سکتے۔اوروں کی طرح مجھے بھی اس حوالے سے بہت ساری شکایات ہو سکتی ہیں ۔ یہ سوال مجھ سے پہلے بھی پوچھا جاتا رہا ہے اور ہر بار میں ایک تخلیق کار کی حیثیت سے کہتا آیا ہوں کہ اگر ادبی تنقید کی تھیوریاں اور ان پر چکرا دینے والی تحریریں ترتیب دینے کا مشغلہ اپنی جگہ ‘ان کا ادبی تخلیقات سے بھی کوئی تعلق ہونا چاہیے ۔ یہ جو کہنے والے کہتے پھرتے ہیں کہ ما بعد جدیدیت والے فی الاصل مغرب کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل میں جتے ہوئے ہیں کہیں وہ سچ تو نہیں کہہ رہے۔ چلئے صاحب مان لیا کہ حالی‘آزاد اور شبلی پرانی وضع کے آدمی تھے’رومانی تنقید ماضی رسید ہو چکی‘ ترقی پسندوں کی تنقید ترقی پسندی کی طرح مات کھا گئی ہے‘ جدیدیئے بھی اپنی تکرار کے ملبے تلے دبے کراہ رہے ہیں مگر یہ تو بتائیے مابعد جدیدیت والے ساخت‘ ساخت شکنی‘ قاری اسا س تنقید‘ اضافیت‘ تکثیریت‘امتزاجی تنقید اور اکتشافی تنقید کے فلسفیانہ مباحث سے کب تک فارغ ہو لیں گے کہ ادھر تخلیقی ادب کو نقاد کی صورت بھول گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نئی نئی تھیوریاں پیش کرنا بری بات ہے‘ ضرور پیش کیجئے ۔ایسے مباحث سے اذہان روشن ہوتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ جدیدیت والے علامت ‘ استعارے ‘فارم‘ فلسفے اورماورائیت کے کیوں قریب تھے اور مابعد جدیدیت والوں کو نشانات‘ anti form‘ مجازِمرسل اور ڈیزائن کیوں کر بھلے لگتے ہیں۔جب رولاں بارت نے مصنف کی موت کی خبر دی تھی تو مجھے قاری ‘ذہین قاری اور باذوق قاری کا خیال سوجھنے لگا تھا اور آپ نے جلدی جلدی مصنف کے کفن دفن کا اہتمام شروع کردیا یہی رویوں میں وہ فرق ہے‘ جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔دیکھئے مجھے تو یہ موت کچھ ایسے لگی جیسے سعادت حسن مر گیا ہو مگر منٹو سارے میں اٹھلاتا پھرتا ہو۔ ہمارے افسانے میں بے پناہ توانائی ہے ادھر منہ کیجئے اور اپنے ہی اوزاروں سے سہی‘ اسے آزما کر تو دیکھئے۔
اسد فیض: پاکستان اور بھارت میں فکشن کے کس نقاد کے کام کو آپ تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کیوں؟
محمد حمید شاہد:اردو میں فکشن کے ارتقاءکے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں ناقدین اپنے اپنے طریقے سے اس صنف کی تخلیقات کو پرکھتے آرہے ہیں۔آپ اس کام سے مطمئن ہوں یا نہ ہوں اسے بہتر کام کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ فکشن کی تیکنیک اور فنی لوازم کے حوالے سے جو کام فوری طور پر ذہن میں آتا ہے اس میں ڈاکٹر احسن فاروقی کی مختصر سی کتاب ”ناول کیا ہے؟“ افسانے کے حوالے سے سید وقار عظیم ‘ عبدالقادر سروری‘ اویس احمد ادیب‘ مجنوں گورکھپوری‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتب شامل ہیں مگر مجھے سب سے بڑھ کر لطف شمس الرحمن فاروقی کی ”افسانے کی حمایت میں“ کو پڑھ کر آیا۔ جگہ جگہ یہ کتاب مشتعل کرتی ہے ٹہوکے لگاتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے میں ایسی کتابوں کو جو آپ کو سکون سے نہ بیٹھنے دیں بہت پسند کرتا ہوں ۔ اس باب میں وارث علوی نے شمس الرحمن فاروقی کی جو گرفت کی ہے اسے اور منٹو کے حوالے سے ان کے کام کو ضرور پڑھا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں افسانے کی تنقید کے باب میں خود منٹو کے خطوط اور بیدی کی کتابوں کے دیباچے‘ انٹرویوز وغیرہ کو بھی توجہ سے دیکھا جانا چاہی ¿ے۔ حسن عسکری‘ ممتاز شیریں ‘گوپی چند نارنگ‘ مہدی جعفر‘ فردوس انور قاضی ‘ شہزاد منظر‘ڈاکٹر انوار احمد‘ انتظار حسین‘ انیس ناگی ‘ڈاکٹر مسعود رضا خاکی‘ اعجاز راہی‘ احمد جاوید‘مرزا حامد بیگ‘ڈاکٹر نوازش علی‘ صبا اکرام‘ علی حیدر ملک اور ذرا آگے چلیں تو نئی نسل میں آصف فرخی‘ امجد طفیل ‘ مبین مرزا‘ سلیم آغاقزلباش‘ جمیل احمد عدیل‘ مشرف عالم ذوقی ‘ ناصر عباس نیر اور بے شمار لکھنے والے‘ جنہیں فکشن پر لکھنا مرغوب ہے ان سب کے فکشن کے حوالے سے کام کو آپ ایک ہلے میں نہیںجھٹک سکتے ۔ ہو سکتا ہے بہت سے مقامات پر معاملہ الجھایا گیا ہو ‘ فن پاروں کی تفہیم میں ٹھوکریں کھائی گئی ہوںگی‘ بعض نام گنوا کر گزر گئے ہوں گے مگر اس سارے کام سے فکشن کو ازسر نو جانچنے کی بنیاد فراہم ہو جاتی ہے اور یہی فکشن پر لکھے جانے والی تنقید کا مثبت پہلو بنتا ہے۔
اسد فیض:افسانے کے علاوہ آپ کا کون سا کام جو منظر عام پر آچکا ہے اور اس ضمن میں ردعمل کیا رہا؟
محمد حمید شاہد:میری پہلی کتاب سیرت النبی پر ہے ‘ ”پیکر جمیل “جو زمانہ طالب علمی میں لکھی تھی ۔ افسانوں کے تین مجموعوں کے علاوہ نثموں کا مجموعہ” لمحوں کا لمس“ اور طنزیہ قاعدہ”الف سے اٹکھیلیاں“شائع ہوچکے ہیں ۔ میری نثموں کا انگریزی میں ترجمہ علامہ بشیر حسین ناظم اور پروفیسر شوکت واسطی نے کیا جو ”The Touch of Moments“کے نام سے طبع ہوا۔ اسی طرح اصغر عابد نے میرے منتخب افسانوں کوسرائیکی میں ترجمہ کیا اور ڈاکٹر طاہر تونسوی نے اسے ”پارو“ کے نام سے سرائیکی ادبی بورڈ ملتان کے زیر اہتمام چھاپا۔ ”اشفاق احمد‘ شخصیت اور فن“ کے حوالے سے اکیڈمی آف لیٹرز نے اے حمید سے ایک کتاب لکھوائی اس میں موجود گفتگوئیں اور اس کی تدوین میری ذمہ داری ٹھہری۔ میرے تنقیدی مضامین کو پروفیسر رﺅف امیر نے ”ادبی تنازعات“ کے نام سے مرتب کیا جسے حرف اکادمی نے راولپنڈی سے شائع کیا۔ میں نے وقفے وقفے سے بین الاقوامی شاعری کے تراجم بھی کیے جو ارشد چہال نے ”سمندر اور سمندر“ کے عنوان سے مرتب کردیئے اور انہیں دستاویزنے لاہور سے چھاپا۔ اظہر سلیم مجوکہ نے میری تخلیقات کا تنقیدی جائزہ لینے والے مضامین کو یکجا کرکے اس کا عنوان جمایا”تخلیقی جہات“ ۔یہ کتاب ملتان سے بیکن ہاﺅس نے چھاپی ۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز ‘قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی ایک طالبہ نے میرے مجموعی کام کے حوالے سے ‘پروفیسر راشد حسن رانا کی نگرانی میں ایک مقالہ لکھا تھا جبکہ حال ہی میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ‘ اسلام آباد کے ایک طالب علم اور ایک طالبہ نے الگ الگ ایم اے کے لیے میرے افسانوںپراپنے مقالات لکھے ہیں۔ادبی جریدے ”آفاق“ نے میرے افسانوں کے حوالے سے خصوصی گوشہ چھاپا ہے مجھے اس توجہ نے حوصلہ دیا ہے کہ اپنے تخلیقی عمل سے اس کی سچائیوں کے ساتھ خلوص اور پوری توجہ سے جڑا رہوں۔
اسد فیض: کیا ہمارے ہاں معیاری افسانہ لکھا جا رہا ہے ۔ کس دور کو آپ اردو افسانے کا سنہرا دور قرار دیتے ہیں اور آپ کی نظر میں کون سے ہم عصر افسانہ نگار لائق تحسین ہیں؟
محمد حمید شاہد:آپ کے سوال کے پہلے حصے کا جواب ہے ‘ جی ہاں ۔ مگر میں نہیں جانتا آپ کی نظر میں معیار کیا ہے ؟ ۔ چوں کہ ہم نے افسانے کی صنف کو مغرب سے لیا ہے لہذا ممکن ہے معیار کا تعین بھی آپ ادھر کی شارٹ اسٹوری سے کریں اور اس حوالے سے میں بڑی ذمے داری سے کہوں گاکہ کسی بھی صنف کے پھلنے پھولنے کے لیے ایک صدی کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے مگر اردو افسانے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس ایک صدی کے عرصے میں یہ عالمی افسانے سے کسی بھی مقابلے میں کم تر معیار کا نہیں رہا ہے ۔تو یوں میں اس ایک صدی کے عرصے کو اردو افسانے کا سنہری دورانیہ کہوں گا ۔ہم عصر افسانے کے حوالے سے یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ نئے لکھنے والوں نے اس بھید بھری صنف کو اس ضعف سے نکال لیا ہے جو علامت نگاروں کی وجہ سے اس کا مقدر بنا تھااور یوں اسے نئی زندگی دے دی ہے۔ میں اپنے ساتھ افسانہ لکھنے والوں کی سنجیدہ نسل کو دیکھتا ہوں تو اعتماد سے سر بلند ہو جاتا ہے ۔فہمیدہ ریاض ‘شبنم شکیل اور فاطمہ حسن کومیں افسانے کے حوالے سے نئی لکھنے والیاں کہوں گا کہ یہ سب اسی دورانئے میں افسانے بھی لکھنے لگی ہیں ۔آصف فرخی ‘ انور زاہدی ‘ جمیل احمد عدیل نیلم احمد بشیر‘ بشریٰ اعجاز‘نیلوفر اقبال‘ عبدالوحید رانا‘ شبانہ حبیب‘شعیب خالق‘ عرفان احمد عرفی‘ شہناز شورو‘طاہرہ اقبال‘ امجد طفیل‘عاصم بٹ‘ رفاقت حیات‘فرحین چوہدری‘سلیم آغاقزلباش‘فرخندہ شمیم‘ فرحت پروین‘حفیظ خان‘ محمد الیاس‘ حامد سراج ‘ غافر شہزاد کے علاوہ لبابہ عباس ‘ عابدہ تقی ‘ یعقوب غرشین اور کئی نئے لکھنے والے باقاعدگی سے افسانے لکھ رہے ہیں ۔ بے شک کچھ لکھنے والے ابھی تک پرانی روش پر قائم ہیں تاہم ایسی کہانی بھی لکھی جا رہی ہے جو بینٹھی کی طرح دونوں جانب سے روشن ہوتی ہے ۔ باہر سے مکمل مربوط اور مضبوط اور اس کے اندر سے زیادہ گہرے وسیع معنی کا دھارا امنڈتا ہوا۔گزشتہ دنوں میں داستان کے بعد قائم ہونے والی فکشن کی روایت کے بارے انتظارحسین کے قائم کردہ موقف پر بات کر رہا تھا تو اس صدی میں لکھے گئے کئی ایسے افسانے ایک لڑی میں پروئے گئے جو اردوفکشن کا مجموعی مزاج متعین کرتے ہیں ان افسانوں کو گنوانے کے بعد میں نے یہ کہا تھا کہ بھلا ان جیسی ان گنت کہانیوں کو پڑھنے کے بعدبھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ کہانی گم ہو گئی ہے یا گم ہو سکتی ہے۔
اسد فیض: شمس الرحمن فاروقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں افسانہ ہندوستان میں بہتر لکھا جا رہا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
محمد حمید شاہد: میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شمس الرحمن فاروقی کو بہت محبت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ ان کا کام اردو ادب کا ایسا سرمایہ ہے جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ ہمارے دوست مبین مرزا نے فاروقی صاحب کو نقد تہذیب کا حاصل کہا ہے تو بے جا نہیں کہا۔ ان کی غیر معمولی تنقیدی صلاحیتوں کا تو ایک زمانہ معترف ہے ۔ صاحب جس کی نظر میں ”شعر ‘ غیرشعر‘ اور نثر“ ”تفہیم غالب“” شعر شور انگیز“ اور”اردو کا ابتدائی زمانہ“ ہویا جس نے فاروقی صاحب کا داستان امیر حمزہ کے حوالے سے کام ”ساحری‘ شاہی ‘صاحب قرانی“ کو دیکھا ہو تو کون کافر ہوگا جس کا دل احترام اور مرعوبیت سے بھر نہ جائے گا۔ تو یوں ہے کہ فاروقی صاحب کے لےے میرے دل میں بے پناہ محبت اور احترام بھی ہے اور میں اندر سے ان کی شخصیت کے رعب میں بھی ہوں ۔اس سب کے باوجود فاروقی صاحب کے ساتھ فکشن کے حوالے سے نہایت احترام سے اختلاف کرتا آیا ہوں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ فاروقی صاحب کا شاعری کے حوالے سے بھی بہت کام ہے ” گنج سوختہ“ سبز اندر سبز“ ”چارسمت دریا“ اور”آسمان محراب“ اگر آپ کی نظر میں ہیں اور غالب اور میر پر ان کاکام بھی آپ نے دیکھ رکھا ہے تو آپ جان سکتے ہیں کہ ایسے میں شاعری کو ہی سب کچھ سمجھ لینا اور شاعری کے مقابلے میں فکشن کو تخلیق کے مرتبے سے گرا دینا اس فضا کی کارستانی لگتی ہے جس میں فاروقی صاحب رہ رہے تھے ۔ مجھے یاد دلانا ہے کہ اس عرصے میں انہوں نے فکشن کی اپنے تئیں لگ بھگ دھجیاں ہی بکھیر کر رکھ دی تھیںاور یہاں تک کہہ دیا تھا کہ افسانے میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ نئے تجربات ہو سکیں اور یہ کہ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا۔ فاروقی صاحب کا تب یہ کہنا بھی تھا کہ افسانہ ایک معمولی صنف سخن ہے اور علی الخصوص شاعری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا اور کم بخت تاریخ کا یہ فیصلہ بھی سنادیا تھا کہ کوئی شخص صرف و محض افسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے ۔ فاروقی صاحب کی یہ باتیں ان کی کتاب ”افسانے کی حمایت“ میں موجود ہیں ۔ تاہم آپ جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے ان کے خوب صورت افسانوں کا مجموعہ ”سوار“ آچکا ہے وہ آج کل ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں اور دونوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ایک الگ مزاج کی تحریریں ہیں ۔ فکشن کے قریب ہو کر انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ان کے پہلے فیصلے نادرست تھے کہ جسے وہ عمر بھراصناف پر حکمرانی کے لائق گردانتے رہے ‘ اسے سب اصناف سے اعلی واولی قرار دیتے رہے ‘ اس میں اتناحوصلہ تھا ‘نہ وسعت کہ ان تخلیقی تجربوں کو سہار سکتی جو اس کمزور‘ معمولی اور نہ بدلنے والی صنف نے کمال ہمت سے اور اپنے بھیتر کے دائروں اور بھنوروں کو بدل کر سہار لیے تھے ۔ مجھ پر فاروقی صاحب کے بہت احسانات ہیں ”شب خون“ میں انہوں نے مجھے بہت محبت سے چھاپا مگر لگتا یوں ہے کہ اپنے ناول اور افسانوں کی فضا میں رہنے کی وجہ سے وہ وہاں کے فکشن نگاروں کے بہت قریب ہوگئے ایسا ہونا قدرتی امر ہے ۔ تاہم اندیشہ ہے کہ کہیں یہ قریب نظری کا شاخسانہ ہی نہ ہو کہ ایک بار پھر لگ بھگ ہی ویسی خلاف واقعہ بات کہہ دی گئی ہے جیسی فکشن اور شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہی گئی تھی ۔ مجھے یقین ہے بہت جلد پہلے کی طرح انہیں اپنے کہے پر نظر ثانی کرنا پڑے گی کہ بات ہندوستان اور پاکستان کے افسانوں کو سامنے رکھ کر کی جائے تو نتیجہ کچھ اور نکلے گا ۔ پاک وہند کے کچھ اردو افسانوں کے نام میں آپ کو سنا آیا ہوں ایک فہرست فاروقی صاحب کو بنا نی چاہیے پھر جو تجزیہ ہوگا تو فیصلہ بھی ہو جائے گا مگر ٹھہرے اتنی بھی کیا جلدی ہے آپ اپنا کام کیجئے اور وقت کو اپنا کام کرلینے دیجئے کہ تخلیقی میدان میں تخلیق اہم ہوتی ہے اس طرح کے فیصلے اور دعوے چنداں وقعت نہیں رکھتے ۔
٭٭٭

Saturday, February 28, 2009

انیلہ محمود : اوصاف

ادب کی تخلیق کاا پنا میکانزم ہوتاہے
انیلہ محمود سے محمد حمید شاہد کا اوصاف کے لیےمکالمہ

ادیب اورتہذیبی و قومی تقاضے
ادیب کے لیے تہذیبی و قومی تقاضے کیا ہیں ؟یہ سوال بظاہر بہت دلکش اور لائق توجہ لگتا ہے لیکن اپنی نہاد اور طینت میں یہ ایک خرابی اور گمراہی بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ سوال اٹھا کر گویا یہ تاثر دیا جارہا ہے۔ کہ ادیب اپنی تہذیب اور قوم سے کٹی ہوئی اور الگ تھلگ رہنے والی مخلوق ہوتا ہے لہذا اس پر باہر سے یا پھر اوپر سے کچھ تقاضے اور ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی بنت میں ہی ایک آمرانہ خواہش موجود ہے۔ لگ بھگ ہر مارشل لا کے زمانے میں ادیبوں کو اسی حیلے سے رام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ جان لینا چاہیئے کہ تہذیب کا تعلق محض معاشرے کی سطح پر رواں لہروں اور ابال سے نہیں ہوتا۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس قومی مزاج سے عبارت ہے جو کہیں صدیوں میں جاکر زمین‘ زبان اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ادب بنیادی طور پر تہذہبی مظہر ہی ہوتا ہے اور ادیب اسی تہذیب کا نمایندہ ۔ لکھنے والا جب کوئی افسانہ ‘ناول یا نظم لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی روح عین اسی لمحے میں اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ‘ اس تہذیبی معبد میں موجود ہوتی ہے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ تخلیق کے دورانیے میں ادیب کا ذاتی جوہر ہمیشہ مقدم رہتا ہے اس میدان میں اسے اکیلا ہی اترنا ہوتا ہے ۔ فرد کی فکری اساس سوچنے سمجھنے کی راہ تو متعین کر سکتی ہے مگر تخلیقی عمل شروع ہونے پر جو راستہ اختیار کرتا ہے‘ اس میں باقی چیزیں اور خارجی سہارے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی تحریک‘ کوئی نعرے لگانے والا ‘کوئی تقاضے کرنے والا ساتھ نہیں ہوتا۔ اور جو اپنے تخلیقی عمل سے مخلص ہونے کے بجائے ان مطالبہ کرنے والوں کے پیچھے ہولیتا ہے وہ کبھی بھی اول درجے کا ادیب ہونے کا حق دار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اپنے اندر بپا تخلیقی عمل سے وفادار ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نعرے لگانے کا راستہ اختیار کرنے سے تخلیق کے نفیس اور پراسرار عمل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔ ادب میںیہ تقاضوں والی خرابی ترقی پسندوں کی وجہ سے رواج پا گئی تھی ۔ راجندر سنگھ بیدی سے منٹو تک اور فیض سے قاسمی تک سب اپنے ذاتی تخلیقی جوہر کی وجہ سے ہمارے لیے قابل قدر ہیں ورنہ خود ترقی پسندوں نے تو منٹو کو الگ کردیا اور اقبال کے انہدام کے جتن کیے جانے لگے تھے ۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کا شور شراباادب کے اردگرد جاری رہنے والی سرگرمی تو ہو سکتی ہے ادبی سرگرمی نہیں کہلائی جا سکتی ہے۔ اور ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں کہ مقلدین کا ایک ٹولہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایسے شاہ دولے کے چوہوں کا ٹولہ جن کی فکریات مانگے تانگے کی ہوتی ہے ۔ ادیب اور تخلیق کار کی کی اپنی ترکیب میں یہ وصف موجود ہوتا ہے کہ وہ فکری جبر کو توڑتا ہے ۔ دانش کے دائروں کو وسعت دیتا ہے۔ سٹیٹس کو‘کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ظلم اور ظالم دونوں نے نفرت کرتا ہے اور ہر بار مظلوم کے ساتھ جاکھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کے لکھنے والے اپنے فن پاروں میں اسرار اور گہرائی اس لیے پیدا کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیبی مظاہر سے بہت گہرائی میں جاکر مکالمہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔ یہ مان لینا چاہئے کہ جہاں ارضی حوالے کسی تہذیب میں بنیاد ہوتے ہیں وہاں فکری اور اعتقادی حوالے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ اگر یہ فکری حوالے نہ ہوں تو جو بھی معاشرہ بنے گا‘ چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو‘ اس میںفرد اکیلا اور تنہا ہوجاتاہے ۔ ادب اورادیب آدمی کو تنہا اور بے یارومددگار ہونے نہیں دیتا۔ وہ اسے اجتماع اور تہذیب سے جوڑ کر اس کی رگوں میں صدیوں کے انسانی تجربے کا شعور رواں کردیتا ہے ۔ اسے ماضی سے جوڑتا اور مستقبل کی سمت جست لگانے کی للک دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادیب کے سامنے تقاضوں اور ذمہ داریوں کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ادب کی تخلیق کاا پنا ایک میکانزم ہوتاہے۔ ادب کی تخلیق تاریخ لکھنے کی طرح نہیں ہوتی کہ تاریخ تو بالادست طبقے کے جاہ و حشم کی روداد کے سوا کچھ اور نہیں ہوتی ۔ یہ تاریخ بالعموم مکار ہوتی ہے اور صرف جیتنے والوں ‘ قوت حاصل کرلینے والوں کے گن گاتی ہے ۔ اس میں بعض اوقات جھوٹ اتنے تواتر سے لکھا جاتا ہے کہ وہی سچ لگنے لگتا ہے بالکل اسی طرح جیسے آج کے جارحیت کے عہد میں میڈیا پر غلبہ پاکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جارہا ہے۔ ادب معاشرتی اور سماجی سطح پر ہونے والے سانحے کی محض ایسی خبر بھی نہیں ہوتا جو اگلے روز باسی ہوجاتی ہے ۔ یہ تو زمینوں اور زمانوں میں سفر کرنے والے تجربے کا وہ جوہر ہوتا جس کا جمالیاتی وار دیر تک اور دور تک رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آواز بہت دھیمی ‘ ٹھہری ہوئی‘ مدہم اور روح میں اترنے والی ہوتی ہے ۔ تاہم یہ جمالیاتی سطح پراس سارے جھوٹ کا پردہ چاک کر رہی ہوتی ہے جو تاریخ اور خبر لمحہ موجود میں اپنے اندر سمیٹ رہی ہوتی ہے ۔ ادب معاشرے کے بالادست طبقہ سے کہیں زیادہ عام آدمی سے مکالمہ کرتا ہے اور سچ کو اپنے دامن میں بھر لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر آہستہ روی سے ہوتا ہے اور دیرپا ہوتا ہے۔ لیجئے اب اسی مرحلے پر ذمہ داری والے سوال سے نمٹ لیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی عمل کی نعمت صرف اسی کے فرد کے مقدر اور طینت کا حصہ بنتی ہے جو اپنی تہذیب سے جڑا ہوا ہوتا ہے اپنے لوگوں اور اپنی زمین سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ادب لکھنے کا قرینہ کسی اتھلے اور سطحی شخص کے ہاتھ نہیں آتا۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادیب بنیادی طور پر ہوتا ہی مہذب اور ذمہ دار ہے اور یہ تہذیب اور ذمہ داری اسے اس کا باطن تفویض کر رہا ہوتا لہذا وہ اصولی طور پر کسی اور کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا۔ روزنامہ اوصاف اسلام آباد ادبی ایڈیشن 21 نومبر 2008

حامد سراج : مکالمہ

لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑرہاہے۔

تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا؟


افسانہ نگار‘ناول نگار اور نقادمحمد حمید شاہد کا حامد سراج سے مکالمہ

سوال: ”برف کا گھونسلا“ آپ کے افسانوں کے مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔” بند آنکھوں سے پرے“ اور” جنم جہنم“ سے لے کر ” مرگ زار“ تک آپ نے افسانے کی صنف میں متعدد نئے تجربات کےے ۔ کیا کہیں گے آپ ‘ یہ تجربات کیسے رہے ؟ قاری اور نقاد نے انہیں کس آنکھ سے دیکھا ؟
محمد حمید شاہد: بھئی قاری اور نقاد کا نقطہ نظر تو قاری اور نقاد سے پوچھو۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے میں اسے ایک سچے تخلیق کار کا فریضہ گردانتا ہوں کہ وہ تخلیقی عمل کے دوران پامال راستوں سے بچ نکلنے کے جتن کرے ۔ اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ جو فن پارہ پہلے سے موجود تخلیقی سرمائے سے کسی حد تک مختلف نہیں ہوتااس کا جواز تخلیق پارے کے حوالے سے فراہم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر نئے کامیاب افسانے کے عناصر اسی موضوع کے کسی بھی دوسرے افسانے سے مختلف ہو جاتے ہیں ۔ ہر تخلیقی کہانی میں ہیئت اور مواد کا امتزاج الگ ہوجاتا ہے ۔ زبان میں لطیف سطح پر تبدیلی لائی جاتی ہے ۔ کہیں احساس کو موضوع کی سطح پر برتا جاتا ہے اور کہیں موضوع احساس بن جاتا ہے ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح زبان کا ایک طرح کا استعمال زبان کو بوسیدگی کی سطح پر لے آتا ہے اسی طرح ایک ہی ڈھنگ سے کہانی کہنے کا چلن اس کے اندر سے تازگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ شاید اسی احساس کے تحت میں ہربار کہانی کے مقابل ایک نئے ڈھنگ سے ہوتا رہا ہوں اور میں نے ان نام نہاد اسلوب ماروں کا چلن اختیار نہیں کیا جن کے ہاں اسلوب تو قائم ہو گیا تھا مگر کہانی اور اس کا بیانیہ رخصت ہوگیا تھا۔
سوال : اردو افسانہ کہیں زوال کا شکار تو نہیں ۔۔۔ ؟
محمد حمید شاہد: حامد سراج تم خود کہانی لکھ رہے ہو ‘ تم نے ”ڈنگ “جیسی کہانی اسی عہد زوال میں لکھی ہے ۔ ”سورگ میں سور“ سے لے کر مرگ زارتک اور وہ ساری کہانیاں جن کا تم میرے حوالے سے ذکر کرتے ہویہ بھی میرے قلم سے اسی عہد میں ٹپکی ہیں ۔ آصف فرخی کی ”پاڈا“ اور ”واچوڑے کی واٹ“ زاہدہ حنا کی ”کم کم بہت آرام سے ہے“ اسلم سراج کی ”سمر سامر “ نیلوفر اقبال کی ”برف“ امجد طفیل کی ”مچھلیاں شکار کرتی ہیں “ اور کھینچے ہے مجھے کفر‘فرحت پروین کی ”سکنک“طاہرہ اقبال کی” دیسوں میں“عاصم بٹ کی ”دستک“مبین مرزا کی ”گمشدہ لوگ “ خالد جاوید کی ”تفریح میں ایک دوپہر“اور وہ ساری کہانیاں جو اس سے پہلی والی نسل کے افسانہ نگاروں نے اس عہد میں کہانی کے ٹوٹے ہوئے خارج کو پھر سے سلامت کرکے لکھیں کیا عجب نہیں ہے کہ وہ بھی اسی عہد زوال میں پھر سے افسانے کے قاری کا اعتبار پا رہی ہیں ۔ حامدپیارے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ تخلیقی طور پر ہانپنے لگتے ہیں انہیں ہر کہیں سے زوال ہی زوال دکھنے لگتا ہے۔ ورنہ معاملہ یہ ہے کہ
یہی وہ عہد بنتا ہے جس میں بانجھ علامتوں کو لائق اعتنا نہ جانا گیا ‘ مجرد روایت پرستی سے منھ موڑا گیا‘ سیاسی نعرے بازی کو بھی جھنڈی دکھادی گئی اور اصل تخلیقی اسرار کے محرکات سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی گئی۔ میںپہلے بھی اسے نشان زد کر چکا ہوں کہ جدید ترتخلیق کاروں کی تخلیقات سے نہ تو کافور کے ہُلے اُٹھتے ہیں اور نہ ہی ان کے حلقوم سے نعرے نکل کر حلکم ڈالتے ہیں۔ آج کی تخلیقات نہ تو کسی خاص نظریے کی باجگزار ہیں نہ مسلط افکار کی پرچارک۔ لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑنے لگا ہے جس کے سبب وہ ماقبل کے اَدبی متون سے یکسر مختلف ہو گئی ہیں۔ تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا۔

سوال : کیا افسانے میں علامت کا دور لد گیا ‘ ےا جب بھی کوئی آہن گر آئے گا تو اس کی ضرورت محسوس ہو گی‘ مراد یہ ہے کہ کیا علامت کے لےے معاشرے میں جبر اور گھٹن کا ہو نا گزیر ہے ۔؟
محمد حمید شاہد: کہانی نے کسی بھی عہد میں علامت بن جانے سے انکار نہیں کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر کامیاب افسانہ اپنی کل میں ایک علامت بن جایا کرتی ہے ۔ رہ گئی یہ دلیل کہ گھٹن کے دور میں ہی کہانی علامت کا سہارا لیا کرتی ہے‘ بہت کمزور دلیل ہے ۔ دراصل علامت کے فیشن کا زمانہ لدتے وہ افسانہ نگار جو صبح وشام افسانے جنم دیا کرتے تھے انہیں اب کچھ سوجھ نہیں رہا تو وہ نئے وقت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں ایسے میں انہیں گزرا ہوا وقت ہی اچھا لگتا ہے جب رنگ برنگی علامتوں کے کنکووں سے تخلیق کی دھنگ چھوڑتے آسمان کو ڈھک لیا کرتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے پیارے کہ جب بھی اور جہاں تخلیق کے پروسس کو خارجی صورت حال کے حوالے کردیا گیا جیسا کہ ترقی پسندوں نے کیا تھا یا اسے ایک فیشن بنالیا گیا جس طرح کہ علامت نگاروں اور تجرید کاروں کے ہاں ہوا تو اس زمانے میں ادب ہلا گلا تو خوب مچتا ہے بچ جانے والا ادب کم کم ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا زمانے میں بھی کچھ سخت جان تخلیق کار ایسے ہوتے ہیں جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے بچ نکلنے کی وجہ نہ تو ان کی ترقی پسندی رہی ہے نہ علامت کاری کا چلن یہ تخلیق کے ساتھ وابستگی ہی ہے جو انہیں معتبر بنا گئی ہے۔ اب رہ گیا سوال کا یہ حصہ کہ کیا پھر علامت کا دور آئے گا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ علامت نگاری کو فیشن کی سطح پر لے آنے والا زمانہ پھر نہیں آسکتا تاہم میری خواہش ہو گی کہ ایسا زمانہ نہ آئے تو ہی تخلیق کے حق میں بہتر رہے گا۔ مدت بعدکہانی کا خارج سالم ہوا اور اس کے بھیتر میں کہانی کا بھید پوری سما گیا ہے ۔ علامت افسانے کے اوپر بھدی عورت کے بھاری اور شوخ میک اپ کی صورت نہیں لیپی جارہی اسے تخلیقی سطح پر متن کے اندر سما جانے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ یہی دھیما مزاج تخلیق کار اور تخلیق دونوں کے حق میں بہتر ہے۔
سوال : ہمارے نقاد ا ور ادیب ہر صنفِ سخن کا موازنہ مغرب سے کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟ کیا ہم تخلیقی سطح پر بانجھ ہیں ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: موازنہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں تاہم کرنا یہ ہوگا کہ تہذیبی سطح پر ان نشانات کو سمجھ لیا جائے جو تخلیق پاروں کے جوہر اور روح کو بدل کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ فی الاصل تخلیقی عمل ایک تہذیبی مظہر بھی ہے ۔ یہ فیشن میں کچھ لکھ لینے سے وجود میں نہیں آتا ہے بل کہ باطنی کائنات کی وسعتوں کو سمیٹ لینے اور ان وسعتوں کے اندر موجزن معنیاتی طلسم کے نور دھاروں تک رسائی پانے کے بعد اپنی صورت بناتا ہے ۔ مرعوب نقالوں اور اندھے مقلدوں پرتخلیقی توفیق کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ تو بھائی چاہے تنقید ہو یا تخلیقی اپنی تہذیبی سرشت سے کٹ کر اس سے جب بھی معاملہ کریں گے ٹھوکر کھائیں گے ۔ تہذیبیں ایک دوسرے سے لین دین کیا کرتی ہیں اس پر نہ مجھے اعتراض ہے نہ کوئی اور ذی ہوش معترض ہوگا بس دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ادھر کی بات ہوتی ہے تو سو گز پھاڑے جاتے ہیں اور اپنی بات ہوتی ہے کچھ وارنے کو بچتا ہی نہیں ہے ۔

سوال : آپ کی تخلیقات کی تعداد اور سنین ۔۔۔؟کہ کل کو آپ پر تحقیق ہو تو وہ سمت نما ثابت ہوں
محمد حمید شاہد: جی‘ میرے افسانوں کے اب تک تین مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ پہلا ”بند آنکھوں سے پرے“ ۴۹۹۱ءمیں ”الحمد “لا ہور سے‘ دوسرا ”جنم جہنم“ ۸۹۹۱ءمیں ”استعارہ “ اسلام آباد اور تیسرا”مرگ زار“ ۴۰۰۲ءمیں ”اکادمی بازیافت“ کراچی سے۔ اس کے علاوہ ایک ناول ” مٹی آدم کھاتی ہے“ شائع ہو چکا ہے ۔ جب کہ دوسرا ناول زیر تکمیل ہے۔تنقید کی پہلی کتاب ”ادبی تنازعات “ تھی جو ۰۰۰۲ میں حرف اکادمی راول پنڈی نے چھاپی جب کے افسانے کی تنقید پر کتاب”اردو افسانہ ‘صورت و معنی“ ۶۰۰۲ میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن نے چھاپی۔ دوسرے موضوعات کی کتب میں ‘ ”سمندر اور سمندر“” لمحوں کا لمس“”اشفاق احمد شخصیت اور فن “ وغیرہ شامل ہیں۔

سوال : آپ کا ناول کا تجربہ کیسا رہا ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: ”مٹی آدم کھاتی ہے “ کا تجربہ میرے لیے یوں بہت اہم ہے کہ اسے غیر معمولی پذیرائی ملی ۔ ہمارے ہاں ناول کے بیانیے کو چست رکھنے کا چلن نہیں ہے اس ناول میں اس کی صورت سجھائی گئی ہے ۔ غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب برتا گیا ہے اور قاری کو کہانی سے وابستہ رکھنے کے لیے متن پر مرحلہ وار معنیاتی اکتشاف کو روا رکھا گیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول کی کامیابی کو اس کے بیانیہ کا اعجاز قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ اس میں رومان اور تشدد کو یکجا کردیا گیا ہے ۔ مجھے فاروقی صاحب کی یہ بات بھی بہت حوصلہ دے گئی ہے کہ انہیں اس خاکسار کے ہاں ایسے موضوعات مل جاتے ہیں جن کے بارے میں زیادہ تر لکھنے والے گومگو میں مبتلا ہیں کہ فکشن کی سطح پر ان سے کیا معاملہ کیا جائے ۔ ظفر اقبال ایسے تخلیق کار ہیں جو میرے تنقیدی خیالات پر اکثر برہم نظر آتے ہیں تاہم اس ناول کے کردار انہیں بھی بہت اچھے لگے ہیں ۔ فتح محمد ملک ہوں یا افتخار عارف ‘ علی محمد فرشی ہوں یا ابرار احمد سب نے اسے کامیاب تجربہ کہہ کر میرا خوب حوصلہ بڑھایا ہے ۔

سوال: دہشت کے اس زمانے میں کیا کہانی کے تقاضے بدل نہیں گئے؟

محمد حمید شاہد: جی ہاں بدل گئے ہیں ۔ اور اگر دہشت کا یہ زمانہ نہ آیا ہوتا تو بھی کہانی کو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو بدل جانا ہی ہوتا۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقی تجربہ عین مین وراثت میں نہیں ملا کرتا۔روایت سیدھی لکیر نہیں ہوتی کہ اسے ہی پیٹتے چلے جائیں ۔ ادبی روایت میں تبدیلی ‘ کانٹ چھانٹ اور اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی کاٹ پھانس نے کہانی کا چلن متعین کرنا ہے ۔ کہانی کے بارے میں میں کہتا آیا ہوں کہ یہ زندگی کی تخلیق نو کا نام ہے۔ زندگی جستجو اور بقا کانام بھی کہانی ہے ۔ زندگی سانسوں کا آہنگ ہوتا ہے ۔ یہ آہنگ کہانی پورے معاشرے میں تلاش کرتی ہے۔ پہلے معاشرہ بہت پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ پھیلا ہوا اور آپس میں گتھا ہوا ۔ تب دکھ سکھ ان معاشروں کی اندر سے پھوٹتے تھے اور سانجھے ہوتے تھے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے ۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں ‘ ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں ۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دکھوں سے کہیں بڑے دکھ باہر سے آتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار جس پر اس کی سیدھی باڑھ پڑتی ہے ‘وہ اسے اپنے تخلیقی تجربے سے الگ کیسے رکھ سکتا ہے؟اس کی حسیں کیوں کر معطل رہ سکتی ہیں؟ اس کا تجربہ اور اس کا مشاہدہ کیسے اس منظرنامے سے غیر متعلق ہوسکتا ۔ لہذادہشت کے اس موسم میں کہانی کا چلن ویساہو ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ ٹھہری ہوئی اور جمی جمائی زندگی میں ہوتا ہے۔ ایک تدبیر تو یہ ہے کہ کہانی لکھنے والا اس سارے عرصے میں الگ تھلگ پڑا اپنی حسوں کو معطل رکھے۔ یہ طرز عمل یقینا ایک سچے تخلیق کار کے ضمیر پر بوجھ بن جائے گا۔ لہذا اپنے ضمیر اور تخلیق دونوں سے وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بدلی ہوئی کہانی لکھ کر اپنے اور اپنے تخلیقی تجربے کے زندہ ہونے‘ اور زندگی سے جڑنے کا ثبوت فراہم کیاجائے تو یوں ہے کہ سچے تخلیق کاروں نے نئے عہدکے چیلنج کو سمجھا ہے اور دل کڑا کرکے اپنے تخلیقی تجربے کو عصری حسیت سے جوڑدیاہے ۔

طارق شاہد :روزنامہ جناح ،اسلام آباد

محمد حمید شاہد(فکشن نگار: نقاد) سے مکالمہ:طارق شاہد
س: تخلیقی عمل آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: اگر آپ ایک ہی جملے میں جواب چاہیں گے تو میں کہوں گا کہ تخلیقی عمل اپنی اصل میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کے امکانات کی تلاش کا نام ہے ۔ ہم تخلیقی عمل کو ادب کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں تو کہتا چلوں کہ کسی بھی فن پارے میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کا تعلق خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ باطنی امیج سے ہوتا ہے جو اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنے حیطہءاکتشاف میں لے لینے کی سکت رکھتا ہے۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقیت کا بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مَتن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے باطنی امیج کے روشن کناروں سے جا کر جڑ جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کا شعور دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے ‘ وجدان اور ذہانت۔ تخلیقی عمل کے دوران وجدان اور ذہانت دونوں کو دو مختلف متضاد ابعاد پر موجود رہنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ تخلیقی جو ہر کا سلسلہ باطنی امیج سے انسلاک کے باعث وجدان سے جاجڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لفظ کی خارجی سطح مقدم نہیں رہتے ۔ مجھے تو یہ لفظ انسانی وجود کی طرح دکھائی دیتے ہےں ‘مختلف بافتوں اور ساختوں کا مجموعہ۔ اگرچہ لفظ اپنے مجرد وجود کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا اور اس کا سارا وقار اس میں پنہاں اس کے معنی کے سبب ہوتا ہے مگر اس مغالطے کو بھی رفع کرنا لازم ہے کہ اس سے مراد محض وہ معنی ہیں ہی نہیں جو وہ جو لغت میں درج ہیں‘ نہ وہ معنی مراد ہیں جو جملے کی عمومی ترتیب بدل دینے سے اس میں آ جاتے ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے یا پھر جو قاری کا بدلتا شعور اس سے برآمد کرتا رہتا ہے۔میں تو تخلیقی عمل کے دوران کے امکانی معنوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک تخلیق کار کی دسترس میں تب آتے ہیں جب وہ خیر اور سچائی کے جذبے کے ساتھ تخلیقی عمل کے پراسرار علاقے میں اندر تک گھس جاتا ہے۔تخلیق کے اندر امیج بننے کے عمل کو بصریاتی عمل کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بصریات میں یہ انعکاس یا انعطاف کا کرشمہ ہوتا ہے مگر اَدبی مَتن میںمحاکات فوری یا حقیقی مفہوم کی سطوح سے بے نیاز قدرے کشادہ ‘گہرے اور افقی لاشعوری علاقے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ میں اپنے تخلیقی تجربے اور ادبی تاریخ کو سامنے رکھ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ تخلیق عمل کے دورانیے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے باقی سارے خارجی سہارے پسپا ہو جاتے ہیں ۔
س: آپ کی تخلیقات کا بنیادی محور آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: صاحب ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انسان اور کائنات کی مثلث تو کب کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ جو ژاں پال سارتر نے تصور خدا کے باب میں جوہر کو وجود پر مقدم بتایا تھااب اسے مان لیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ وہ سب جھوٹے تھے جوانسان کو کائنات کے مرکز میں رکھتے تو اور انسان کے سینے میں اس عزم کوبسانا چاہتے تھے کہ وہ کائنات کو تسخیر کرے ۔ تخلیق اب تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھتا رہا لسانی تھیوریوں نے اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ اب صاف صاف کہا جارہا ہے کہ تخلیقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے والا محض محرر ہوتا ہے عبارتوں کی تشکیل نو کرنے والا اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت سے ہم کنار ہو جانے والا۔ کائنات کے بھی وہ معنی نہیں رہے جو تخلیقی عمل کو مہمیز لگاتے تھے یا لگا سکتے تھے اب یہ محض مادی حقیقت ہے گویا ایسا جسم جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مباحث کی اس دھول میں کہ جہاں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گیا ہے‘ تخلیق پارہ پہلے سے موجود متن کا عکس نو ہو گیا ہے‘ معنی بے دخل ہو چکے ہیں اور انسان اپنے منصب سے معزول ہو چکا ہے میرے جیسے تخلیق کا رکا ‘ جو کہ ان بنیادی اقدار سے ساتھ اپنے وجود کے پورے اخلاص کے ساتھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکیا مقصد ہو سکتا ہے کہ تخلیقی عمل کو زندہ رکھا جائے ۔ میرے ہاں خدا موجود ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انسان موجود ہے اپنے پورے وقار کے ساتھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خالص ادبی تخلیق پہلے سے موجود ادبی متون کا چربہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے توسیعی علاقہ فراہم کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شعوری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے معنی کی تلاش کو جمالیاتی ہمہ گیری کے وصف کے ساتھ ممکن بنانے کو ہی میں اپنی تخلیقات کا محور کہہ سکتا ہوں ۔
س:پاکستانی ادب میں مزاحمتی رویہ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ادب آغاز سے مزاحمتی رویہ لیے ہوئے ہے ؟
محمد حمید شاہد: میرا خیال ہے ‘ یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادب اپنی نہاد میں ہوتا ہی مزاحمتی ہے۔ وہ مفاہمتی تو بالکل نہیں ہوتا اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود علاقہ ہے ۔ ہمارے ہاں کے ادب میں بھی یہ وصف مستقلاً موجود رہا ہے ۔ تاہم جب جب اس رویے کو نعرے لگا لگا کر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ادب پارے کم اور مزاحمت پارے زیادہ تخلیق ہوئے ۔ مزاحمت پارے وجود میں لانے کا عمل خارجی محرکات سے جڑا ہوتا ہے جس کے دباﺅ میں تخلیقی عمل اپنے بھید بھرے علاقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکتا۔ جس صورت حال کے خلاف مزاحمت مقصود ہے اس کے خلاف نفرت کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنالینے والے سچے تخلیق کار کو اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ اب وہ مزاحمتی ادب لکھنے جارہا ہے ۔
س : پاکستانی ادب کی مجموعی صورت حال کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد: : میں پاکستانی ادب کی موجودہ صورت حال سے قطعاً مایوس نہیں ہوں ۔ رواں ربع صدی تک آتے آتے ادبی تخلیقات کے مزاج کا بدل جانا ادبی تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ دیکھئے غزل کم کم تبدیلی کو قبول کرتی ہے مگر قدرے تازہ علامتوں‘نئے تلازموں اور جدید طرز احساس کے سبب غزل کو بھی کچھ کچھ نیا کہا جا سکتا ہے۔اس صنف کی اپنی مجبوریاں ہیں اور انہی مجبوریوں میں رہ کر ہی اس کے لیے مزید امکانات کی بابت سوچا جا سکتا ہے تاہم کتنی خوش آئند بات ہے کہ گذشتہ قریب ترین عرصے میں اگر ظفر اقبال منیر نیازی ‘شہزاد احمد‘پروین شاکر‘افتخار عارف ‘ریاض مجید‘ثروت حسین‘خالد احمد‘ سلیم کوثر‘جلیل عالی‘جمال احسانی‘سحر انصاری‘غلا م محمد قاصر‘غلام حسین ساجد سے لے کر خاور اعجاز‘صغیر ملال‘علی اکبر عباس‘ ثمینہ راجہ ‘ قیوم طاہر اور نجیب احمد جیسے کئی ناموں نے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی‘تو گذشتہ کچھ عرصے میں عباس تابش‘رﺅف امیر‘طارق نعیم‘اصغر عابد‘ سعود عثمانی‘افضل گوہر‘ اختر شیخ‘ احمد حسین مجاہد‘عابد سیال‘شاہین عباس‘باقی احمد پوری‘ حسن کاظمی‘ اختر شمار‘ سلیم طاہر‘ حسین مجروح‘ ناصر بشیر‘ آفتاب جاوید‘ احمد نوید‘ اکبر معصوم‘ شہاب صفدر‘ اجمل سراج ‘غضنفر ہاشمی‘عثمان ناعم‘اخترعثمان‘ شوذب کاظمی اور ان جیسے کئی غزل گو اسی تگ وتاز میں مصروف ہیں۔ نئی نظم نے رواں ربع صدی تک آتے آتے عجب تیور دکھائے ہیں ۔ علی محمد فرشی‘ ابرار احمد‘ نصیر احمد ناصر‘ انوار فطرت‘ رفیق سندیلوی‘ وحید احمد‘ ذی شان ساحل‘ حارث خلیق‘یامین‘ پروین طاہر‘ روش ندیم‘ ابرار احمد‘ اقتدار جاوید‘جاوید انوراورمقصود وفا اور کئی دوسرے نظم گو شعراءنے کہ جن کے نام فوری طور پر ذہن میں نہیں آ رہے ‘ قابل قدر کام کیا ہے۔اردو ناول میں کم کام ہوا ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ شعبہ سرے سے نظر انداز ہو گیا ہو ۔ قرة العین حیدر‘انتظار حسین ‘عبداللہ حسین‘ممتاز مفتی‘جمیلہ ہاشمی اورانورسجاد سے لے کر فہیم اعظمی ‘انیس ناگی مستنصر حسین تارڑ‘انورسن رائے ‘فاروق خالد‘عاصم بٹ‘ ارشد چہال‘ وحید احمد تک جو کام ہوا ہے وہ ہماری نظر میں رہنا چاہیے۔ افسانے اردو ادب کی مقبول ترین نثری صنف کے طور پر لیا جاتا رہا ہے ۔ اس باب میں خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد اور ‘ مشرف احمدکے بعد والی نسل میں کئی جو افسانہ نگار سامنے آئے ہیں۔ فہمیدہ ریاض ‘شبنم شکیل اور فاطمہ حسن کومیں افسانے کے حوالے سے نئی لکھنے والیاں کہوں گا کہ یہ سب اسی دورانئے میں شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھنے لگی ہیں ۔آصف فرخی ‘ انور زاہدی‘مبین مرزا ‘ جمیل احمد عدیل‘ نیلم احمد بشیر‘ بشریٰ اعجاز‘نیلوفر اقبال‘ شبانہ حبیب‘شعیب خالق‘ عرفان احمد عرفی‘ شہناز شورو‘طاہرہ اقبال‘ امجد طفیل‘عاصم بٹ‘ رفاقت حیات‘ فرحین چوہدری ‘سلیم آغاقزلباش‘نگہت سلیم‘فرخندہ شمیم‘ فرحت پروین‘حفیظ خان‘ محمد الیاس‘ حامد سراج‘ یعقوب شاہ غرشین‘ عابدہ تقی‘حمید قیصر‘ لبابہ عباس‘ سمیرا نقوی اور غافر شہزاد کے افسانے ادبی جرائد میں پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے افسانے کے ساتھ دلچسپی پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے ۔ افسانے کا وہ چلن جس میں کہانی بینٹھی کی طرح دونوں جانب سے روشن ہوتی ہے مسقبل کا چلن بن گیا ہے ۔ باہر سے مکمل مربوط اورمرصوص اور اس کے اندر سے زیادہ گہرے وسیع معنی کا دھارا امنڈتا ہوا۔تنقید کے میدان میں بھی امید بندھ گئی ہے ایک زمانہ اگر حسن عسکری‘مولانا صلاح الدین احمد‘ کلیم الدین احمد‘ سے لے کروزیر آغا جیسے لوگوں سے موسوم تھا تو آجکل سید مظہر جمیل‘ شاہین مفتی‘تحسین فراقی‘ناصر عباس نیر‘آصف فرخی‘امجد طفیل ‘ضیاالحسن‘ مبین مرزا زاہد منیر عامر‘روف پاریکھ‘روش ندیم‘ پروین طاہر‘ رفیق سندیلوی‘ عقیلہ بشیر وغیرہ اس باب میں قابل ذکر کام کر رہے ہیں ۔ نثم ہو یاانشائیہ ‘ یاد نگاری‘خاکے‘ ماہیئے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی کام کرنے والے اپنی دھج سے جتے ہوئے ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ تخلیق کھوکھلے نعروں کی جبریت سے آزاد ہوکر فن کے جوہر سے قریب ہوئی۔ یہ جو فنا اور بقا یا پھر کائنات اور ابدیت کو ایک ساتھ دیکھنے کا عمل ہے اس نے آج کے ادب کو زیادہ گہرائی ‘گیرائی اور لپک دے دی ہے۔ آج کی کہانی اور نظم کے حوالے سے تو میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے آپ دنیا کے کسی بھی ادب کے مقابلے کا بلکہ کہیں کہیں تو آگے نکلتا ہوا پائیں گے
۔س: پاکستان میں کتاب کی صورت حال (اشاعت اور قارئین)؟
محمد حمید شاہد: ایک بات تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پہلے کے مقابلے اب کتاب زیادہ چھپ رہی ہے ۔ ادب کے ساتھ ہمیشہ سے یہ معاملہ رہا ہے کہ اسے باذوق قارئین ہی میسر آتے رہے ہیں ۔ یہ انہی کا مسئلہ رہا ہے ۔ تاہم جب سے مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کا طوطی بولنے لگا ہے دوسری تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ادبی اقدار اور اس کے مظاہر بھی دباﺅ کا شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ خود انسان اور انسانیت پر بھی کڑا وقت آن پڑا ہے ۔ اب جب کہ پیداوار کے منابع پر قبضے کے لیے انسان کو تھوک کے حساب سے تہہ تیغ کرنا جائز ہو گیا ہے اور نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں اس علاقے کے تہذیبی مظاہر اور اخلاقی اقدار کو رجعت پسندی گردان کر جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ آزمایا جانے لگا ہے تو ایسے میں بے چاری کتاب اور اس کا قاری کیا کرے گا ۔ پوری دنیا میںورچوئیل رئیلٹی کی زد میں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کا انفامیشن گاربیج نے انسان سے اس کی آزادی کی خواہش چھین کر اس کے اندر زیادہ آسائشوں کے حصول کی تاہنگ رکھ دی ہے۔ تاہم میں نے ایک بار کہا تھا کہ یہ نیا رجحان نئی دلہن کی طرح جو پہلے پہل اچھی لگتی ہے ۔ نئے پن کا میک اپ جوں ہی اترے گا کتاب پھر راج کرے گی کہ دیکھے اور سنے ہوئے لفظ سے کہیں زیادہ قوت اس لفظ میں ہوتی ہے جو لکھا ہوا ہوتا ہے۔
س: آپ کی زندگی کا سفر؟
محمد حمید شاہد: میں پنڈی گھیب میں پیدا ہوا ۔وہیں ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی ۔پھر فیصل آباد آگیا۔زرعی یونیورسٹی سے بقول سید ضمیر جعفری مرحوم زراعت اور بستانیت کا فاضل ہوا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونورسٹی لاہور میں ایف ای ایل کا سٹوڈنٹ بھی ہوا مگر آغاز ہی میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کہ والد صاحب شدید علیل تھے۔واپس پنڈی گھیب آ گیا۔والد صاحب کا انتقال ہو گیا توبنک جوائن کر لیا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا ۔بنکنگ ڈپلومہ کاا متحان اور کچھ کمپیوٹر کورسسز‘ یہ تعلیم کا سلسلہ تو ایسا ہے کہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ‘سو جاری ہے۔جہاں تک ادبی مصروفیات کا تعلق ہے تو بتاتا چلوں کہ میرے لٹریچر کے قریب ترآنے کا دورانیہ وہی بنتا ہے جب میں فیصل آباد میں تھا۔ وہاںکے ادبی حلقوں کی نشستوں اور باذوق احباب کی صحبت کے سبب میرے خون میں ادبی جراثیم داخل ہوگئے۔ پڑھنے کی طرف تو میں پہلے ہی راغب تھاتاہم ادب کی باقاعدہ اصناف کی طرف رغبت یہیں آ کر بڑھی۔وہیں میں نے پہلی کتاب مکمل کی‘ پہلا انشائیہ لکھااورپہلا افسانہ شائع ہوا۔اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سا وقت حسبِ سابق مطالعہ لے لیتا ہے۔افسانہ میری مرغوب صنف ہے ‘ تنقید اور تراجم بھی توجہ کھینچتے رہتے ہیں ۔
س: اردو افسانے کا معیار اور ارتقا؟
محمد حمید شاہد: صاحب‘ اردو افسانے کو ایک صدی سے بھی زائد عرصہ ہوگیا ہے ۔ عین آغاز میں ہی اَفسانے کے تیور دیکھنے کے لائق تھے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اَفسانہ قصے کہانی کی روایت کے بجائے اپنے بیانیے ‘ اسلوب اور اپنی حسوں کو مغربی روایت کے زیر اثر رواں منظر نامے سے اُٹھا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اَفسانے کی روایت اس ہند مسلم تہذیب سے جڑ گئی اور اَفسانہ یہاں کی مخصوص بو باس اور مابعد الطبیعیاتی اِسرار کے اندر یوں پھلا پھولا کہ ہم اسے بجا طور پر عالمی فکشن کے مقابلے میں معنوی اور جمالیاتی سطح پرکہیں تو ساتھ کھڑے پاتے ہیں اور کہیں اس سے آگے زقند بھرتے پاتے ہیں ‘مشرق کی اسی دھند اور اسرار کے سبب جس طرف مغرب کا تخلیق کار بار بار لپکتا ہے اور اس اسلوب کے سبب جو ہم نے ان سے اُچک لیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو میری تازہ کتاب ”اردو افسانہ : صورت معنی “ کا حصہ ہے یہاں اس کا محل نہیں تاہم میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اردو افسانے کا ایک صدی کا سفر اپنے معیار اور ارتقا کے اعتبار سے دوصدیوں کےسفر پر بھی بھاری ہو گیا ہے۔


س: آپ کی کتابیں ؟ کب اور کون کون سی شائع ہوئیں؟
محمد حمید شاہد : اب تک شائع ہونے والی کتب کی تفصیل,
افسانے,
بند آنکھوں سے پرے,جنم جہنم , مرگ زار,
تنقید
ادبی تنازعات, اشفاق احمد:شخصیت و فن( تدوین),اردو افسانہ : صورت و معنی
, کچھ اور کتابیں
پیکر جمیل(سیرت النبی), لمحوں کا لمس(نثمیں) ,الف سے اٹکھیلیاں(طنزیے), سمندر اور سمندر(بین الاقوامی شاعری کے اردو تراجم), منتخب ادب طور شریک مرتب (پاکستانی ادب)انتخاب برائے۲۰۰۲ سارک ممالک:منتخب تخلیقی ادب آٹھ اکتوبر:تحریر کے آئینے میں