Saturday, February 28, 2009

انیلہ محمود : اوصاف

ادب کی تخلیق کاا پنا میکانزم ہوتاہے
انیلہ محمود سے محمد حمید شاہد کا اوصاف کے لیےمکالمہ

ادیب اورتہذیبی و قومی تقاضے
ادیب کے لیے تہذیبی و قومی تقاضے کیا ہیں ؟یہ سوال بظاہر بہت دلکش اور لائق توجہ لگتا ہے لیکن اپنی نہاد اور طینت میں یہ ایک خرابی اور گمراہی بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ سوال اٹھا کر گویا یہ تاثر دیا جارہا ہے۔ کہ ادیب اپنی تہذیب اور قوم سے کٹی ہوئی اور الگ تھلگ رہنے والی مخلوق ہوتا ہے لہذا اس پر باہر سے یا پھر اوپر سے کچھ تقاضے اور ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی بنت میں ہی ایک آمرانہ خواہش موجود ہے۔ لگ بھگ ہر مارشل لا کے زمانے میں ادیبوں کو اسی حیلے سے رام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ جان لینا چاہیئے کہ تہذیب کا تعلق محض معاشرے کی سطح پر رواں لہروں اور ابال سے نہیں ہوتا۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس قومی مزاج سے عبارت ہے جو کہیں صدیوں میں جاکر زمین‘ زبان اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ادب بنیادی طور پر تہذہبی مظہر ہی ہوتا ہے اور ادیب اسی تہذیب کا نمایندہ ۔ لکھنے والا جب کوئی افسانہ ‘ناول یا نظم لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی روح عین اسی لمحے میں اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ‘ اس تہذیبی معبد میں موجود ہوتی ہے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ تخلیق کے دورانیے میں ادیب کا ذاتی جوہر ہمیشہ مقدم رہتا ہے اس میدان میں اسے اکیلا ہی اترنا ہوتا ہے ۔ فرد کی فکری اساس سوچنے سمجھنے کی راہ تو متعین کر سکتی ہے مگر تخلیقی عمل شروع ہونے پر جو راستہ اختیار کرتا ہے‘ اس میں باقی چیزیں اور خارجی سہارے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی تحریک‘ کوئی نعرے لگانے والا ‘کوئی تقاضے کرنے والا ساتھ نہیں ہوتا۔ اور جو اپنے تخلیقی عمل سے مخلص ہونے کے بجائے ان مطالبہ کرنے والوں کے پیچھے ہولیتا ہے وہ کبھی بھی اول درجے کا ادیب ہونے کا حق دار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اپنے اندر بپا تخلیقی عمل سے وفادار ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نعرے لگانے کا راستہ اختیار کرنے سے تخلیق کے نفیس اور پراسرار عمل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔ ادب میںیہ تقاضوں والی خرابی ترقی پسندوں کی وجہ سے رواج پا گئی تھی ۔ راجندر سنگھ بیدی سے منٹو تک اور فیض سے قاسمی تک سب اپنے ذاتی تخلیقی جوہر کی وجہ سے ہمارے لیے قابل قدر ہیں ورنہ خود ترقی پسندوں نے تو منٹو کو الگ کردیا اور اقبال کے انہدام کے جتن کیے جانے لگے تھے ۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کا شور شراباادب کے اردگرد جاری رہنے والی سرگرمی تو ہو سکتی ہے ادبی سرگرمی نہیں کہلائی جا سکتی ہے۔ اور ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں کہ مقلدین کا ایک ٹولہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایسے شاہ دولے کے چوہوں کا ٹولہ جن کی فکریات مانگے تانگے کی ہوتی ہے ۔ ادیب اور تخلیق کار کی کی اپنی ترکیب میں یہ وصف موجود ہوتا ہے کہ وہ فکری جبر کو توڑتا ہے ۔ دانش کے دائروں کو وسعت دیتا ہے۔ سٹیٹس کو‘کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ظلم اور ظالم دونوں نے نفرت کرتا ہے اور ہر بار مظلوم کے ساتھ جاکھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کے لکھنے والے اپنے فن پاروں میں اسرار اور گہرائی اس لیے پیدا کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیبی مظاہر سے بہت گہرائی میں جاکر مکالمہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔ یہ مان لینا چاہئے کہ جہاں ارضی حوالے کسی تہذیب میں بنیاد ہوتے ہیں وہاں فکری اور اعتقادی حوالے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ اگر یہ فکری حوالے نہ ہوں تو جو بھی معاشرہ بنے گا‘ چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو‘ اس میںفرد اکیلا اور تنہا ہوجاتاہے ۔ ادب اورادیب آدمی کو تنہا اور بے یارومددگار ہونے نہیں دیتا۔ وہ اسے اجتماع اور تہذیب سے جوڑ کر اس کی رگوں میں صدیوں کے انسانی تجربے کا شعور رواں کردیتا ہے ۔ اسے ماضی سے جوڑتا اور مستقبل کی سمت جست لگانے کی للک دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادیب کے سامنے تقاضوں اور ذمہ داریوں کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ادب کی تخلیق کاا پنا ایک میکانزم ہوتاہے۔ ادب کی تخلیق تاریخ لکھنے کی طرح نہیں ہوتی کہ تاریخ تو بالادست طبقے کے جاہ و حشم کی روداد کے سوا کچھ اور نہیں ہوتی ۔ یہ تاریخ بالعموم مکار ہوتی ہے اور صرف جیتنے والوں ‘ قوت حاصل کرلینے والوں کے گن گاتی ہے ۔ اس میں بعض اوقات جھوٹ اتنے تواتر سے لکھا جاتا ہے کہ وہی سچ لگنے لگتا ہے بالکل اسی طرح جیسے آج کے جارحیت کے عہد میں میڈیا پر غلبہ پاکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جارہا ہے۔ ادب معاشرتی اور سماجی سطح پر ہونے والے سانحے کی محض ایسی خبر بھی نہیں ہوتا جو اگلے روز باسی ہوجاتی ہے ۔ یہ تو زمینوں اور زمانوں میں سفر کرنے والے تجربے کا وہ جوہر ہوتا جس کا جمالیاتی وار دیر تک اور دور تک رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آواز بہت دھیمی ‘ ٹھہری ہوئی‘ مدہم اور روح میں اترنے والی ہوتی ہے ۔ تاہم یہ جمالیاتی سطح پراس سارے جھوٹ کا پردہ چاک کر رہی ہوتی ہے جو تاریخ اور خبر لمحہ موجود میں اپنے اندر سمیٹ رہی ہوتی ہے ۔ ادب معاشرے کے بالادست طبقہ سے کہیں زیادہ عام آدمی سے مکالمہ کرتا ہے اور سچ کو اپنے دامن میں بھر لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر آہستہ روی سے ہوتا ہے اور دیرپا ہوتا ہے۔ لیجئے اب اسی مرحلے پر ذمہ داری والے سوال سے نمٹ لیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی عمل کی نعمت صرف اسی کے فرد کے مقدر اور طینت کا حصہ بنتی ہے جو اپنی تہذیب سے جڑا ہوا ہوتا ہے اپنے لوگوں اور اپنی زمین سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ادب لکھنے کا قرینہ کسی اتھلے اور سطحی شخص کے ہاتھ نہیں آتا۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادیب بنیادی طور پر ہوتا ہی مہذب اور ذمہ دار ہے اور یہ تہذیب اور ذمہ داری اسے اس کا باطن تفویض کر رہا ہوتا لہذا وہ اصولی طور پر کسی اور کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا۔ روزنامہ اوصاف اسلام آباد ادبی ایڈیشن 21 نومبر 2008

حامد سراج : مکالمہ

لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑرہاہے۔

تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا؟


افسانہ نگار‘ناول نگار اور نقادمحمد حمید شاہد کا حامد سراج سے مکالمہ

سوال: ”برف کا گھونسلا“ آپ کے افسانوں کے مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔” بند آنکھوں سے پرے“ اور” جنم جہنم“ سے لے کر ” مرگ زار“ تک آپ نے افسانے کی صنف میں متعدد نئے تجربات کےے ۔ کیا کہیں گے آپ ‘ یہ تجربات کیسے رہے ؟ قاری اور نقاد نے انہیں کس آنکھ سے دیکھا ؟
محمد حمید شاہد: بھئی قاری اور نقاد کا نقطہ نظر تو قاری اور نقاد سے پوچھو۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے میں اسے ایک سچے تخلیق کار کا فریضہ گردانتا ہوں کہ وہ تخلیقی عمل کے دوران پامال راستوں سے بچ نکلنے کے جتن کرے ۔ اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ جو فن پارہ پہلے سے موجود تخلیقی سرمائے سے کسی حد تک مختلف نہیں ہوتااس کا جواز تخلیق پارے کے حوالے سے فراہم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر نئے کامیاب افسانے کے عناصر اسی موضوع کے کسی بھی دوسرے افسانے سے مختلف ہو جاتے ہیں ۔ ہر تخلیقی کہانی میں ہیئت اور مواد کا امتزاج الگ ہوجاتا ہے ۔ زبان میں لطیف سطح پر تبدیلی لائی جاتی ہے ۔ کہیں احساس کو موضوع کی سطح پر برتا جاتا ہے اور کہیں موضوع احساس بن جاتا ہے ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح زبان کا ایک طرح کا استعمال زبان کو بوسیدگی کی سطح پر لے آتا ہے اسی طرح ایک ہی ڈھنگ سے کہانی کہنے کا چلن اس کے اندر سے تازگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ شاید اسی احساس کے تحت میں ہربار کہانی کے مقابل ایک نئے ڈھنگ سے ہوتا رہا ہوں اور میں نے ان نام نہاد اسلوب ماروں کا چلن اختیار نہیں کیا جن کے ہاں اسلوب تو قائم ہو گیا تھا مگر کہانی اور اس کا بیانیہ رخصت ہوگیا تھا۔
سوال : اردو افسانہ کہیں زوال کا شکار تو نہیں ۔۔۔ ؟
محمد حمید شاہد: حامد سراج تم خود کہانی لکھ رہے ہو ‘ تم نے ”ڈنگ “جیسی کہانی اسی عہد زوال میں لکھی ہے ۔ ”سورگ میں سور“ سے لے کر مرگ زارتک اور وہ ساری کہانیاں جن کا تم میرے حوالے سے ذکر کرتے ہویہ بھی میرے قلم سے اسی عہد میں ٹپکی ہیں ۔ آصف فرخی کی ”پاڈا“ اور ”واچوڑے کی واٹ“ زاہدہ حنا کی ”کم کم بہت آرام سے ہے“ اسلم سراج کی ”سمر سامر “ نیلوفر اقبال کی ”برف“ امجد طفیل کی ”مچھلیاں شکار کرتی ہیں “ اور کھینچے ہے مجھے کفر‘فرحت پروین کی ”سکنک“طاہرہ اقبال کی” دیسوں میں“عاصم بٹ کی ”دستک“مبین مرزا کی ”گمشدہ لوگ “ خالد جاوید کی ”تفریح میں ایک دوپہر“اور وہ ساری کہانیاں جو اس سے پہلی والی نسل کے افسانہ نگاروں نے اس عہد میں کہانی کے ٹوٹے ہوئے خارج کو پھر سے سلامت کرکے لکھیں کیا عجب نہیں ہے کہ وہ بھی اسی عہد زوال میں پھر سے افسانے کے قاری کا اعتبار پا رہی ہیں ۔ حامدپیارے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ تخلیقی طور پر ہانپنے لگتے ہیں انہیں ہر کہیں سے زوال ہی زوال دکھنے لگتا ہے۔ ورنہ معاملہ یہ ہے کہ
یہی وہ عہد بنتا ہے جس میں بانجھ علامتوں کو لائق اعتنا نہ جانا گیا ‘ مجرد روایت پرستی سے منھ موڑا گیا‘ سیاسی نعرے بازی کو بھی جھنڈی دکھادی گئی اور اصل تخلیقی اسرار کے محرکات سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی گئی۔ میںپہلے بھی اسے نشان زد کر چکا ہوں کہ جدید ترتخلیق کاروں کی تخلیقات سے نہ تو کافور کے ہُلے اُٹھتے ہیں اور نہ ہی ان کے حلقوم سے نعرے نکل کر حلکم ڈالتے ہیں۔ آج کی تخلیقات نہ تو کسی خاص نظریے کی باجگزار ہیں نہ مسلط افکار کی پرچارک۔ لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑنے لگا ہے جس کے سبب وہ ماقبل کے اَدبی متون سے یکسر مختلف ہو گئی ہیں۔ تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا۔

سوال : کیا افسانے میں علامت کا دور لد گیا ‘ ےا جب بھی کوئی آہن گر آئے گا تو اس کی ضرورت محسوس ہو گی‘ مراد یہ ہے کہ کیا علامت کے لےے معاشرے میں جبر اور گھٹن کا ہو نا گزیر ہے ۔؟
محمد حمید شاہد: کہانی نے کسی بھی عہد میں علامت بن جانے سے انکار نہیں کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر کامیاب افسانہ اپنی کل میں ایک علامت بن جایا کرتی ہے ۔ رہ گئی یہ دلیل کہ گھٹن کے دور میں ہی کہانی علامت کا سہارا لیا کرتی ہے‘ بہت کمزور دلیل ہے ۔ دراصل علامت کے فیشن کا زمانہ لدتے وہ افسانہ نگار جو صبح وشام افسانے جنم دیا کرتے تھے انہیں اب کچھ سوجھ نہیں رہا تو وہ نئے وقت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں ایسے میں انہیں گزرا ہوا وقت ہی اچھا لگتا ہے جب رنگ برنگی علامتوں کے کنکووں سے تخلیق کی دھنگ چھوڑتے آسمان کو ڈھک لیا کرتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے پیارے کہ جب بھی اور جہاں تخلیق کے پروسس کو خارجی صورت حال کے حوالے کردیا گیا جیسا کہ ترقی پسندوں نے کیا تھا یا اسے ایک فیشن بنالیا گیا جس طرح کہ علامت نگاروں اور تجرید کاروں کے ہاں ہوا تو اس زمانے میں ادب ہلا گلا تو خوب مچتا ہے بچ جانے والا ادب کم کم ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا زمانے میں بھی کچھ سخت جان تخلیق کار ایسے ہوتے ہیں جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے بچ نکلنے کی وجہ نہ تو ان کی ترقی پسندی رہی ہے نہ علامت کاری کا چلن یہ تخلیق کے ساتھ وابستگی ہی ہے جو انہیں معتبر بنا گئی ہے۔ اب رہ گیا سوال کا یہ حصہ کہ کیا پھر علامت کا دور آئے گا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ علامت نگاری کو فیشن کی سطح پر لے آنے والا زمانہ پھر نہیں آسکتا تاہم میری خواہش ہو گی کہ ایسا زمانہ نہ آئے تو ہی تخلیق کے حق میں بہتر رہے گا۔ مدت بعدکہانی کا خارج سالم ہوا اور اس کے بھیتر میں کہانی کا بھید پوری سما گیا ہے ۔ علامت افسانے کے اوپر بھدی عورت کے بھاری اور شوخ میک اپ کی صورت نہیں لیپی جارہی اسے تخلیقی سطح پر متن کے اندر سما جانے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ یہی دھیما مزاج تخلیق کار اور تخلیق دونوں کے حق میں بہتر ہے۔
سوال : ہمارے نقاد ا ور ادیب ہر صنفِ سخن کا موازنہ مغرب سے کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟ کیا ہم تخلیقی سطح پر بانجھ ہیں ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: موازنہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں تاہم کرنا یہ ہوگا کہ تہذیبی سطح پر ان نشانات کو سمجھ لیا جائے جو تخلیق پاروں کے جوہر اور روح کو بدل کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ فی الاصل تخلیقی عمل ایک تہذیبی مظہر بھی ہے ۔ یہ فیشن میں کچھ لکھ لینے سے وجود میں نہیں آتا ہے بل کہ باطنی کائنات کی وسعتوں کو سمیٹ لینے اور ان وسعتوں کے اندر موجزن معنیاتی طلسم کے نور دھاروں تک رسائی پانے کے بعد اپنی صورت بناتا ہے ۔ مرعوب نقالوں اور اندھے مقلدوں پرتخلیقی توفیق کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ تو بھائی چاہے تنقید ہو یا تخلیقی اپنی تہذیبی سرشت سے کٹ کر اس سے جب بھی معاملہ کریں گے ٹھوکر کھائیں گے ۔ تہذیبیں ایک دوسرے سے لین دین کیا کرتی ہیں اس پر نہ مجھے اعتراض ہے نہ کوئی اور ذی ہوش معترض ہوگا بس دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ادھر کی بات ہوتی ہے تو سو گز پھاڑے جاتے ہیں اور اپنی بات ہوتی ہے کچھ وارنے کو بچتا ہی نہیں ہے ۔

سوال : آپ کی تخلیقات کی تعداد اور سنین ۔۔۔؟کہ کل کو آپ پر تحقیق ہو تو وہ سمت نما ثابت ہوں
محمد حمید شاہد: جی‘ میرے افسانوں کے اب تک تین مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ پہلا ”بند آنکھوں سے پرے“ ۴۹۹۱ءمیں ”الحمد “لا ہور سے‘ دوسرا ”جنم جہنم“ ۸۹۹۱ءمیں ”استعارہ “ اسلام آباد اور تیسرا”مرگ زار“ ۴۰۰۲ءمیں ”اکادمی بازیافت“ کراچی سے۔ اس کے علاوہ ایک ناول ” مٹی آدم کھاتی ہے“ شائع ہو چکا ہے ۔ جب کہ دوسرا ناول زیر تکمیل ہے۔تنقید کی پہلی کتاب ”ادبی تنازعات “ تھی جو ۰۰۰۲ میں حرف اکادمی راول پنڈی نے چھاپی جب کے افسانے کی تنقید پر کتاب”اردو افسانہ ‘صورت و معنی“ ۶۰۰۲ میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن نے چھاپی۔ دوسرے موضوعات کی کتب میں ‘ ”سمندر اور سمندر“” لمحوں کا لمس“”اشفاق احمد شخصیت اور فن “ وغیرہ شامل ہیں۔

سوال : آپ کا ناول کا تجربہ کیسا رہا ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: ”مٹی آدم کھاتی ہے “ کا تجربہ میرے لیے یوں بہت اہم ہے کہ اسے غیر معمولی پذیرائی ملی ۔ ہمارے ہاں ناول کے بیانیے کو چست رکھنے کا چلن نہیں ہے اس ناول میں اس کی صورت سجھائی گئی ہے ۔ غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب برتا گیا ہے اور قاری کو کہانی سے وابستہ رکھنے کے لیے متن پر مرحلہ وار معنیاتی اکتشاف کو روا رکھا گیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول کی کامیابی کو اس کے بیانیہ کا اعجاز قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ اس میں رومان اور تشدد کو یکجا کردیا گیا ہے ۔ مجھے فاروقی صاحب کی یہ بات بھی بہت حوصلہ دے گئی ہے کہ انہیں اس خاکسار کے ہاں ایسے موضوعات مل جاتے ہیں جن کے بارے میں زیادہ تر لکھنے والے گومگو میں مبتلا ہیں کہ فکشن کی سطح پر ان سے کیا معاملہ کیا جائے ۔ ظفر اقبال ایسے تخلیق کار ہیں جو میرے تنقیدی خیالات پر اکثر برہم نظر آتے ہیں تاہم اس ناول کے کردار انہیں بھی بہت اچھے لگے ہیں ۔ فتح محمد ملک ہوں یا افتخار عارف ‘ علی محمد فرشی ہوں یا ابرار احمد سب نے اسے کامیاب تجربہ کہہ کر میرا خوب حوصلہ بڑھایا ہے ۔

سوال: دہشت کے اس زمانے میں کیا کہانی کے تقاضے بدل نہیں گئے؟

محمد حمید شاہد: جی ہاں بدل گئے ہیں ۔ اور اگر دہشت کا یہ زمانہ نہ آیا ہوتا تو بھی کہانی کو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو بدل جانا ہی ہوتا۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقی تجربہ عین مین وراثت میں نہیں ملا کرتا۔روایت سیدھی لکیر نہیں ہوتی کہ اسے ہی پیٹتے چلے جائیں ۔ ادبی روایت میں تبدیلی ‘ کانٹ چھانٹ اور اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی کاٹ پھانس نے کہانی کا چلن متعین کرنا ہے ۔ کہانی کے بارے میں میں کہتا آیا ہوں کہ یہ زندگی کی تخلیق نو کا نام ہے۔ زندگی جستجو اور بقا کانام بھی کہانی ہے ۔ زندگی سانسوں کا آہنگ ہوتا ہے ۔ یہ آہنگ کہانی پورے معاشرے میں تلاش کرتی ہے۔ پہلے معاشرہ بہت پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ پھیلا ہوا اور آپس میں گتھا ہوا ۔ تب دکھ سکھ ان معاشروں کی اندر سے پھوٹتے تھے اور سانجھے ہوتے تھے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے ۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں ‘ ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں ۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دکھوں سے کہیں بڑے دکھ باہر سے آتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار جس پر اس کی سیدھی باڑھ پڑتی ہے ‘وہ اسے اپنے تخلیقی تجربے سے الگ کیسے رکھ سکتا ہے؟اس کی حسیں کیوں کر معطل رہ سکتی ہیں؟ اس کا تجربہ اور اس کا مشاہدہ کیسے اس منظرنامے سے غیر متعلق ہوسکتا ۔ لہذادہشت کے اس موسم میں کہانی کا چلن ویساہو ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ ٹھہری ہوئی اور جمی جمائی زندگی میں ہوتا ہے۔ ایک تدبیر تو یہ ہے کہ کہانی لکھنے والا اس سارے عرصے میں الگ تھلگ پڑا اپنی حسوں کو معطل رکھے۔ یہ طرز عمل یقینا ایک سچے تخلیق کار کے ضمیر پر بوجھ بن جائے گا۔ لہذا اپنے ضمیر اور تخلیق دونوں سے وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بدلی ہوئی کہانی لکھ کر اپنے اور اپنے تخلیقی تجربے کے زندہ ہونے‘ اور زندگی سے جڑنے کا ثبوت فراہم کیاجائے تو یوں ہے کہ سچے تخلیق کاروں نے نئے عہدکے چیلنج کو سمجھا ہے اور دل کڑا کرکے اپنے تخلیقی تجربے کو عصری حسیت سے جوڑدیاہے ۔

طارق شاہد :روزنامہ جناح ،اسلام آباد

محمد حمید شاہد(فکشن نگار: نقاد) سے مکالمہ:طارق شاہد
س: تخلیقی عمل آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: اگر آپ ایک ہی جملے میں جواب چاہیں گے تو میں کہوں گا کہ تخلیقی عمل اپنی اصل میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کے امکانات کی تلاش کا نام ہے ۔ ہم تخلیقی عمل کو ادب کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں تو کہتا چلوں کہ کسی بھی فن پارے میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کا تعلق خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ باطنی امیج سے ہوتا ہے جو اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنے حیطہءاکتشاف میں لے لینے کی سکت رکھتا ہے۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقیت کا بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مَتن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے باطنی امیج کے روشن کناروں سے جا کر جڑ جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کا شعور دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے ‘ وجدان اور ذہانت۔ تخلیقی عمل کے دوران وجدان اور ذہانت دونوں کو دو مختلف متضاد ابعاد پر موجود رہنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ تخلیقی جو ہر کا سلسلہ باطنی امیج سے انسلاک کے باعث وجدان سے جاجڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لفظ کی خارجی سطح مقدم نہیں رہتے ۔ مجھے تو یہ لفظ انسانی وجود کی طرح دکھائی دیتے ہےں ‘مختلف بافتوں اور ساختوں کا مجموعہ۔ اگرچہ لفظ اپنے مجرد وجود کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا اور اس کا سارا وقار اس میں پنہاں اس کے معنی کے سبب ہوتا ہے مگر اس مغالطے کو بھی رفع کرنا لازم ہے کہ اس سے مراد محض وہ معنی ہیں ہی نہیں جو وہ جو لغت میں درج ہیں‘ نہ وہ معنی مراد ہیں جو جملے کی عمومی ترتیب بدل دینے سے اس میں آ جاتے ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے یا پھر جو قاری کا بدلتا شعور اس سے برآمد کرتا رہتا ہے۔میں تو تخلیقی عمل کے دوران کے امکانی معنوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک تخلیق کار کی دسترس میں تب آتے ہیں جب وہ خیر اور سچائی کے جذبے کے ساتھ تخلیقی عمل کے پراسرار علاقے میں اندر تک گھس جاتا ہے۔تخلیق کے اندر امیج بننے کے عمل کو بصریاتی عمل کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بصریات میں یہ انعکاس یا انعطاف کا کرشمہ ہوتا ہے مگر اَدبی مَتن میںمحاکات فوری یا حقیقی مفہوم کی سطوح سے بے نیاز قدرے کشادہ ‘گہرے اور افقی لاشعوری علاقے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ میں اپنے تخلیقی تجربے اور ادبی تاریخ کو سامنے رکھ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ تخلیق عمل کے دورانیے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے باقی سارے خارجی سہارے پسپا ہو جاتے ہیں ۔
س: آپ کی تخلیقات کا بنیادی محور آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: صاحب ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انسان اور کائنات کی مثلث تو کب کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ جو ژاں پال سارتر نے تصور خدا کے باب میں جوہر کو وجود پر مقدم بتایا تھااب اسے مان لیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ وہ سب جھوٹے تھے جوانسان کو کائنات کے مرکز میں رکھتے تو اور انسان کے سینے میں اس عزم کوبسانا چاہتے تھے کہ وہ کائنات کو تسخیر کرے ۔ تخلیق اب تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھتا رہا لسانی تھیوریوں نے اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ اب صاف صاف کہا جارہا ہے کہ تخلیقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے والا محض محرر ہوتا ہے عبارتوں کی تشکیل نو کرنے والا اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت سے ہم کنار ہو جانے والا۔ کائنات کے بھی وہ معنی نہیں رہے جو تخلیقی عمل کو مہمیز لگاتے تھے یا لگا سکتے تھے اب یہ محض مادی حقیقت ہے گویا ایسا جسم جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مباحث کی اس دھول میں کہ جہاں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گیا ہے‘ تخلیق پارہ پہلے سے موجود متن کا عکس نو ہو گیا ہے‘ معنی بے دخل ہو چکے ہیں اور انسان اپنے منصب سے معزول ہو چکا ہے میرے جیسے تخلیق کا رکا ‘ جو کہ ان بنیادی اقدار سے ساتھ اپنے وجود کے پورے اخلاص کے ساتھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکیا مقصد ہو سکتا ہے کہ تخلیقی عمل کو زندہ رکھا جائے ۔ میرے ہاں خدا موجود ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انسان موجود ہے اپنے پورے وقار کے ساتھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خالص ادبی تخلیق پہلے سے موجود ادبی متون کا چربہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے توسیعی علاقہ فراہم کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شعوری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے معنی کی تلاش کو جمالیاتی ہمہ گیری کے وصف کے ساتھ ممکن بنانے کو ہی میں اپنی تخلیقات کا محور کہہ سکتا ہوں ۔
س:پاکستانی ادب میں مزاحمتی رویہ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ادب آغاز سے مزاحمتی رویہ لیے ہوئے ہے ؟
محمد حمید شاہد: میرا خیال ہے ‘ یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادب اپنی نہاد میں ہوتا ہی مزاحمتی ہے۔ وہ مفاہمتی تو بالکل نہیں ہوتا اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود علاقہ ہے ۔ ہمارے ہاں کے ادب میں بھی یہ وصف مستقلاً موجود رہا ہے ۔ تاہم جب جب اس رویے کو نعرے لگا لگا کر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ادب پارے کم اور مزاحمت پارے زیادہ تخلیق ہوئے ۔ مزاحمت پارے وجود میں لانے کا عمل خارجی محرکات سے جڑا ہوتا ہے جس کے دباﺅ میں تخلیقی عمل اپنے بھید بھرے علاقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکتا۔ جس صورت حال کے خلاف مزاحمت مقصود ہے اس کے خلاف نفرت کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنالینے والے سچے تخلیق کار کو اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ اب وہ مزاحمتی ادب لکھنے جارہا ہے ۔
س : پاکستانی ادب کی مجموعی صورت حال کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد: : میں پاکستانی ادب کی موجودہ صورت حال سے قطعاً مایوس نہیں ہوں ۔ رواں ربع صدی تک آتے آتے ادبی تخلیقات کے مزاج کا بدل جانا ادبی تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ دیکھئے غزل کم کم تبدیلی کو قبول کرتی ہے مگر قدرے تازہ علامتوں‘نئے تلازموں اور جدید طرز احساس کے سبب غزل کو بھی کچھ کچھ نیا کہا جا سکتا ہے۔اس صنف کی اپنی مجبوریاں ہیں اور انہی مجبوریوں میں رہ کر ہی اس کے لیے مزید امکانات کی بابت سوچا جا سکتا ہے تاہم کتنی خوش آئند بات ہے کہ گذشتہ قریب ترین عرصے میں اگر ظفر اقبال منیر نیازی ‘شہزاد احمد‘پروین شاکر‘افتخار عارف ‘ریاض مجید‘ثروت حسین‘خالد احمد‘ سلیم کوثر‘جلیل عالی‘جمال احسانی‘سحر انصاری‘غلا م محمد قاصر‘غلام حسین ساجد سے لے کر خاور اعجاز‘صغیر ملال‘علی اکبر عباس‘ ثمینہ راجہ ‘ قیوم طاہر اور نجیب احمد جیسے کئی ناموں نے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی‘تو گذشتہ کچھ عرصے میں عباس تابش‘رﺅف امیر‘طارق نعیم‘اصغر عابد‘ سعود عثمانی‘افضل گوہر‘ اختر شیخ‘ احمد حسین مجاہد‘عابد سیال‘شاہین عباس‘باقی احمد پوری‘ حسن کاظمی‘ اختر شمار‘ سلیم طاہر‘ حسین مجروح‘ ناصر بشیر‘ آفتاب جاوید‘ احمد نوید‘ اکبر معصوم‘ شہاب صفدر‘ اجمل سراج ‘غضنفر ہاشمی‘عثمان ناعم‘اخترعثمان‘ شوذب کاظمی اور ان جیسے کئی غزل گو اسی تگ وتاز میں مصروف ہیں۔ نئی نظم نے رواں ربع صدی تک آتے آتے عجب تیور دکھائے ہیں ۔ علی محمد فرشی‘ ابرار احمد‘ نصیر احمد ناصر‘ انوار فطرت‘ رفیق سندیلوی‘ وحید احمد‘ ذی شان ساحل‘ حارث خلیق‘یامین‘ پروین طاہر‘ روش ندیم‘ ابرار احمد‘ اقتدار جاوید‘جاوید انوراورمقصود وفا اور کئی دوسرے نظم گو شعراءنے کہ جن کے نام فوری طور پر ذہن میں نہیں آ رہے ‘ قابل قدر کام کیا ہے۔اردو ناول میں کم کام ہوا ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ شعبہ سرے سے نظر انداز ہو گیا ہو ۔ قرة العین حیدر‘انتظار حسین ‘عبداللہ حسین‘ممتاز مفتی‘جمیلہ ہاشمی اورانورسجاد سے لے کر فہیم اعظمی ‘انیس ناگی مستنصر حسین تارڑ‘انورسن رائے ‘فاروق خالد‘عاصم بٹ‘ ارشد چہال‘ وحید احمد تک جو کام ہوا ہے وہ ہماری نظر میں رہنا چاہیے۔ افسانے اردو ادب کی مقبول ترین نثری صنف کے طور پر لیا جاتا رہا ہے ۔ اس باب میں خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد اور ‘ مشرف احمدکے بعد والی نسل میں کئی جو افسانہ نگار سامنے آئے ہیں۔ فہمیدہ ریاض ‘شبنم شکیل اور فاطمہ حسن کومیں افسانے کے حوالے سے نئی لکھنے والیاں کہوں گا کہ یہ سب اسی دورانئے میں شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھنے لگی ہیں ۔آصف فرخی ‘ انور زاہدی‘مبین مرزا ‘ جمیل احمد عدیل‘ نیلم احمد بشیر‘ بشریٰ اعجاز‘نیلوفر اقبال‘ شبانہ حبیب‘شعیب خالق‘ عرفان احمد عرفی‘ شہناز شورو‘طاہرہ اقبال‘ امجد طفیل‘عاصم بٹ‘ رفاقت حیات‘ فرحین چوہدری ‘سلیم آغاقزلباش‘نگہت سلیم‘فرخندہ شمیم‘ فرحت پروین‘حفیظ خان‘ محمد الیاس‘ حامد سراج‘ یعقوب شاہ غرشین‘ عابدہ تقی‘حمید قیصر‘ لبابہ عباس‘ سمیرا نقوی اور غافر شہزاد کے افسانے ادبی جرائد میں پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے افسانے کے ساتھ دلچسپی پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے ۔ افسانے کا وہ چلن جس میں کہانی بینٹھی کی طرح دونوں جانب سے روشن ہوتی ہے مسقبل کا چلن بن گیا ہے ۔ باہر سے مکمل مربوط اورمرصوص اور اس کے اندر سے زیادہ گہرے وسیع معنی کا دھارا امنڈتا ہوا۔تنقید کے میدان میں بھی امید بندھ گئی ہے ایک زمانہ اگر حسن عسکری‘مولانا صلاح الدین احمد‘ کلیم الدین احمد‘ سے لے کروزیر آغا جیسے لوگوں سے موسوم تھا تو آجکل سید مظہر جمیل‘ شاہین مفتی‘تحسین فراقی‘ناصر عباس نیر‘آصف فرخی‘امجد طفیل ‘ضیاالحسن‘ مبین مرزا زاہد منیر عامر‘روف پاریکھ‘روش ندیم‘ پروین طاہر‘ رفیق سندیلوی‘ عقیلہ بشیر وغیرہ اس باب میں قابل ذکر کام کر رہے ہیں ۔ نثم ہو یاانشائیہ ‘ یاد نگاری‘خاکے‘ ماہیئے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی کام کرنے والے اپنی دھج سے جتے ہوئے ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ تخلیق کھوکھلے نعروں کی جبریت سے آزاد ہوکر فن کے جوہر سے قریب ہوئی۔ یہ جو فنا اور بقا یا پھر کائنات اور ابدیت کو ایک ساتھ دیکھنے کا عمل ہے اس نے آج کے ادب کو زیادہ گہرائی ‘گیرائی اور لپک دے دی ہے۔ آج کی کہانی اور نظم کے حوالے سے تو میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے آپ دنیا کے کسی بھی ادب کے مقابلے کا بلکہ کہیں کہیں تو آگے نکلتا ہوا پائیں گے
۔س: پاکستان میں کتاب کی صورت حال (اشاعت اور قارئین)؟
محمد حمید شاہد: ایک بات تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پہلے کے مقابلے اب کتاب زیادہ چھپ رہی ہے ۔ ادب کے ساتھ ہمیشہ سے یہ معاملہ رہا ہے کہ اسے باذوق قارئین ہی میسر آتے رہے ہیں ۔ یہ انہی کا مسئلہ رہا ہے ۔ تاہم جب سے مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کا طوطی بولنے لگا ہے دوسری تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ادبی اقدار اور اس کے مظاہر بھی دباﺅ کا شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ خود انسان اور انسانیت پر بھی کڑا وقت آن پڑا ہے ۔ اب جب کہ پیداوار کے منابع پر قبضے کے لیے انسان کو تھوک کے حساب سے تہہ تیغ کرنا جائز ہو گیا ہے اور نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں اس علاقے کے تہذیبی مظاہر اور اخلاقی اقدار کو رجعت پسندی گردان کر جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ آزمایا جانے لگا ہے تو ایسے میں بے چاری کتاب اور اس کا قاری کیا کرے گا ۔ پوری دنیا میںورچوئیل رئیلٹی کی زد میں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کا انفامیشن گاربیج نے انسان سے اس کی آزادی کی خواہش چھین کر اس کے اندر زیادہ آسائشوں کے حصول کی تاہنگ رکھ دی ہے۔ تاہم میں نے ایک بار کہا تھا کہ یہ نیا رجحان نئی دلہن کی طرح جو پہلے پہل اچھی لگتی ہے ۔ نئے پن کا میک اپ جوں ہی اترے گا کتاب پھر راج کرے گی کہ دیکھے اور سنے ہوئے لفظ سے کہیں زیادہ قوت اس لفظ میں ہوتی ہے جو لکھا ہوا ہوتا ہے۔
س: آپ کی زندگی کا سفر؟
محمد حمید شاہد: میں پنڈی گھیب میں پیدا ہوا ۔وہیں ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی ۔پھر فیصل آباد آگیا۔زرعی یونیورسٹی سے بقول سید ضمیر جعفری مرحوم زراعت اور بستانیت کا فاضل ہوا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونورسٹی لاہور میں ایف ای ایل کا سٹوڈنٹ بھی ہوا مگر آغاز ہی میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کہ والد صاحب شدید علیل تھے۔واپس پنڈی گھیب آ گیا۔والد صاحب کا انتقال ہو گیا توبنک جوائن کر لیا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا ۔بنکنگ ڈپلومہ کاا متحان اور کچھ کمپیوٹر کورسسز‘ یہ تعلیم کا سلسلہ تو ایسا ہے کہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ‘سو جاری ہے۔جہاں تک ادبی مصروفیات کا تعلق ہے تو بتاتا چلوں کہ میرے لٹریچر کے قریب ترآنے کا دورانیہ وہی بنتا ہے جب میں فیصل آباد میں تھا۔ وہاںکے ادبی حلقوں کی نشستوں اور باذوق احباب کی صحبت کے سبب میرے خون میں ادبی جراثیم داخل ہوگئے۔ پڑھنے کی طرف تو میں پہلے ہی راغب تھاتاہم ادب کی باقاعدہ اصناف کی طرف رغبت یہیں آ کر بڑھی۔وہیں میں نے پہلی کتاب مکمل کی‘ پہلا انشائیہ لکھااورپہلا افسانہ شائع ہوا۔اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سا وقت حسبِ سابق مطالعہ لے لیتا ہے۔افسانہ میری مرغوب صنف ہے ‘ تنقید اور تراجم بھی توجہ کھینچتے رہتے ہیں ۔
س: اردو افسانے کا معیار اور ارتقا؟
محمد حمید شاہد: صاحب‘ اردو افسانے کو ایک صدی سے بھی زائد عرصہ ہوگیا ہے ۔ عین آغاز میں ہی اَفسانے کے تیور دیکھنے کے لائق تھے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اَفسانہ قصے کہانی کی روایت کے بجائے اپنے بیانیے ‘ اسلوب اور اپنی حسوں کو مغربی روایت کے زیر اثر رواں منظر نامے سے اُٹھا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اَفسانے کی روایت اس ہند مسلم تہذیب سے جڑ گئی اور اَفسانہ یہاں کی مخصوص بو باس اور مابعد الطبیعیاتی اِسرار کے اندر یوں پھلا پھولا کہ ہم اسے بجا طور پر عالمی فکشن کے مقابلے میں معنوی اور جمالیاتی سطح پرکہیں تو ساتھ کھڑے پاتے ہیں اور کہیں اس سے آگے زقند بھرتے پاتے ہیں ‘مشرق کی اسی دھند اور اسرار کے سبب جس طرف مغرب کا تخلیق کار بار بار لپکتا ہے اور اس اسلوب کے سبب جو ہم نے ان سے اُچک لیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو میری تازہ کتاب ”اردو افسانہ : صورت معنی “ کا حصہ ہے یہاں اس کا محل نہیں تاہم میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اردو افسانے کا ایک صدی کا سفر اپنے معیار اور ارتقا کے اعتبار سے دوصدیوں کےسفر پر بھی بھاری ہو گیا ہے۔


س: آپ کی کتابیں ؟ کب اور کون کون سی شائع ہوئیں؟
محمد حمید شاہد : اب تک شائع ہونے والی کتب کی تفصیل,
افسانے,
بند آنکھوں سے پرے,جنم جہنم , مرگ زار,
تنقید
ادبی تنازعات, اشفاق احمد:شخصیت و فن( تدوین),اردو افسانہ : صورت و معنی
, کچھ اور کتابیں
پیکر جمیل(سیرت النبی), لمحوں کا لمس(نثمیں) ,الف سے اٹکھیلیاں(طنزیے), سمندر اور سمندر(بین الاقوامی شاعری کے اردو تراجم), منتخب ادب طور شریک مرتب (پاکستانی ادب)انتخاب برائے۲۰۰۲ سارک ممالک:منتخب تخلیقی ادب آٹھ اکتوبر:تحریر کے آئینے میں