Saturday, February 28, 2009

انیلہ محمود : اوصاف

ادب کی تخلیق کاا پنا میکانزم ہوتاہے
انیلہ محمود سے محمد حمید شاہد کا اوصاف کے لیےمکالمہ

ادیب اورتہذیبی و قومی تقاضے
ادیب کے لیے تہذیبی و قومی تقاضے کیا ہیں ؟یہ سوال بظاہر بہت دلکش اور لائق توجہ لگتا ہے لیکن اپنی نہاد اور طینت میں یہ ایک خرابی اور گمراہی بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ سوال اٹھا کر گویا یہ تاثر دیا جارہا ہے۔ کہ ادیب اپنی تہذیب اور قوم سے کٹی ہوئی اور الگ تھلگ رہنے والی مخلوق ہوتا ہے لہذا اس پر باہر سے یا پھر اوپر سے کچھ تقاضے اور ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال کی بنت میں ہی ایک آمرانہ خواہش موجود ہے۔ لگ بھگ ہر مارشل لا کے زمانے میں ادیبوں کو اسی حیلے سے رام کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ جان لینا چاہیئے کہ تہذیب کا تعلق محض معاشرے کی سطح پر رواں لہروں اور ابال سے نہیں ہوتا۔ یہ بہت گہرائی میں بن چکے اس قومی مزاج سے عبارت ہے جو کہیں صدیوں میں جاکر زمین‘ زبان اور عقائد سب مل کرمرتب کرتے ہیں۔ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ادب بنیادی طور پر تہذہبی مظہر ہی ہوتا ہے اور ادیب اسی تہذیب کا نمایندہ ۔ لکھنے والا جب کوئی افسانہ ‘ناول یا نظم لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی روح عین اسی لمحے میں اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ‘ اس تہذیبی معبد میں موجود ہوتی ہے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ تخلیق کے دورانیے میں ادیب کا ذاتی جوہر ہمیشہ مقدم رہتا ہے اس میدان میں اسے اکیلا ہی اترنا ہوتا ہے ۔ فرد کی فکری اساس سوچنے سمجھنے کی راہ تو متعین کر سکتی ہے مگر تخلیقی عمل شروع ہونے پر جو راستہ اختیار کرتا ہے‘ اس میں باقی چیزیں اور خارجی سہارے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی تحریک‘ کوئی نعرے لگانے والا ‘کوئی تقاضے کرنے والا ساتھ نہیں ہوتا۔ اور جو اپنے تخلیقی عمل سے مخلص ہونے کے بجائے ان مطالبہ کرنے والوں کے پیچھے ہولیتا ہے وہ کبھی بھی اول درجے کا ادیب ہونے کا حق دار نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اپنے اندر بپا تخلیقی عمل سے وفادار ہونے کی بجائے دوسروں کے ساتھ نعرے لگانے کا راستہ اختیار کرنے سے تخلیق کے نفیس اور پراسرار عمل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں۔ ادب میںیہ تقاضوں والی خرابی ترقی پسندوں کی وجہ سے رواج پا گئی تھی ۔ راجندر سنگھ بیدی سے منٹو تک اور فیض سے قاسمی تک سب اپنے ذاتی تخلیقی جوہر کی وجہ سے ہمارے لیے قابل قدر ہیں ورنہ خود ترقی پسندوں نے تو منٹو کو الگ کردیا اور اقبال کے انہدام کے جتن کیے جانے لگے تھے ۔ سچ یہ ہے کہ اس طرح کا شور شراباادب کے اردگرد جاری رہنے والی سرگرمی تو ہو سکتی ہے ادبی سرگرمی نہیں کہلائی جا سکتی ہے۔ اور ایسی سرگرمیوں کے ذریعے ہم دیکھتے ہیں کہ مقلدین کا ایک ٹولہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ ایسے شاہ دولے کے چوہوں کا ٹولہ جن کی فکریات مانگے تانگے کی ہوتی ہے ۔ ادیب اور تخلیق کار کی کی اپنی ترکیب میں یہ وصف موجود ہوتا ہے کہ وہ فکری جبر کو توڑتا ہے ۔ دانش کے دائروں کو وسعت دیتا ہے۔ سٹیٹس کو‘کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ظلم اور ظالم دونوں نے نفرت کرتا ہے اور ہر بار مظلوم کے ساتھ جاکھڑا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کے لکھنے والے اپنے فن پاروں میں اسرار اور گہرائی اس لیے پیدا کر لیتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیبی مظاہر سے بہت گہرائی میں جاکر مکالمہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔ یہ مان لینا چاہئے کہ جہاں ارضی حوالے کسی تہذیب میں بنیاد ہوتے ہیں وہاں فکری اور اعتقادی حوالے بھی اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ اگر یہ فکری حوالے نہ ہوں تو جو بھی معاشرہ بنے گا‘ چاہے وہ کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو‘ اس میںفرد اکیلا اور تنہا ہوجاتاہے ۔ ادب اورادیب آدمی کو تنہا اور بے یارومددگار ہونے نہیں دیتا۔ وہ اسے اجتماع اور تہذیب سے جوڑ کر اس کی رگوں میں صدیوں کے انسانی تجربے کا شعور رواں کردیتا ہے ۔ اسے ماضی سے جوڑتا اور مستقبل کی سمت جست لگانے کی للک دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادیب کے سامنے تقاضوں اور ذمہ داریوں کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ادب کی تخلیق کاا پنا ایک میکانزم ہوتاہے۔ ادب کی تخلیق تاریخ لکھنے کی طرح نہیں ہوتی کہ تاریخ تو بالادست طبقے کے جاہ و حشم کی روداد کے سوا کچھ اور نہیں ہوتی ۔ یہ تاریخ بالعموم مکار ہوتی ہے اور صرف جیتنے والوں ‘ قوت حاصل کرلینے والوں کے گن گاتی ہے ۔ اس میں بعض اوقات جھوٹ اتنے تواتر سے لکھا جاتا ہے کہ وہی سچ لگنے لگتا ہے بالکل اسی طرح جیسے آج کے جارحیت کے عہد میں میڈیا پر غلبہ پاکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جارہا ہے۔ ادب معاشرتی اور سماجی سطح پر ہونے والے سانحے کی محض ایسی خبر بھی نہیں ہوتا جو اگلے روز باسی ہوجاتی ہے ۔ یہ تو زمینوں اور زمانوں میں سفر کرنے والے تجربے کا وہ جوہر ہوتا جس کا جمالیاتی وار دیر تک اور دور تک رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آواز بہت دھیمی ‘ ٹھہری ہوئی‘ مدہم اور روح میں اترنے والی ہوتی ہے ۔ تاہم یہ جمالیاتی سطح پراس سارے جھوٹ کا پردہ چاک کر رہی ہوتی ہے جو تاریخ اور خبر لمحہ موجود میں اپنے اندر سمیٹ رہی ہوتی ہے ۔ ادب معاشرے کے بالادست طبقہ سے کہیں زیادہ عام آدمی سے مکالمہ کرتا ہے اور سچ کو اپنے دامن میں بھر لیتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر آہستہ روی سے ہوتا ہے اور دیرپا ہوتا ہے۔ لیجئے اب اسی مرحلے پر ذمہ داری والے سوال سے نمٹ لیتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی عمل کی نعمت صرف اسی کے فرد کے مقدر اور طینت کا حصہ بنتی ہے جو اپنی تہذیب سے جڑا ہوا ہوتا ہے اپنے لوگوں اور اپنی زمین سے وابستہ ہوتا ہے ۔ ادب لکھنے کا قرینہ کسی اتھلے اور سطحی شخص کے ہاتھ نہیں آتا۔ یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادیب بنیادی طور پر ہوتا ہی مہذب اور ذمہ دار ہے اور یہ تہذیب اور ذمہ داری اسے اس کا باطن تفویض کر رہا ہوتا لہذا وہ اصولی طور پر کسی اور کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا۔ روزنامہ اوصاف اسلام آباد ادبی ایڈیشن 21 نومبر 2008

No comments:

Post a Comment