Saturday, February 28, 2009

طارق شاہد :روزنامہ جناح ،اسلام آباد

محمد حمید شاہد(فکشن نگار: نقاد) سے مکالمہ:طارق شاہد
س: تخلیقی عمل آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: اگر آپ ایک ہی جملے میں جواب چاہیں گے تو میں کہوں گا کہ تخلیقی عمل اپنی اصل میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کے امکانات کی تلاش کا نام ہے ۔ ہم تخلیقی عمل کو ادب کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں تو کہتا چلوں کہ کسی بھی فن پارے میں معنی کی تکثیریت اور جمال کی ہمہ گیری کا تعلق خارجی ہیئت سے کہیں زیادہ باطنی امیج سے ہوتا ہے جو اشیائے مدرکہ کے جوہر کو اپنے حیطہءاکتشاف میں لے لینے کی سکت رکھتا ہے۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقیت کا بھید اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مَتن کس طرح اور کس حد تک لفظوں کے باطنی امیج کے روشن کناروں سے جا کر جڑ جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کا شعور دو حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے ‘ وجدان اور ذہانت۔ تخلیقی عمل کے دوران وجدان اور ذہانت دونوں کو دو مختلف متضاد ابعاد پر موجود رہنا چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ تخلیقی جو ہر کا سلسلہ باطنی امیج سے انسلاک کے باعث وجدان سے جاجڑتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لفظ کی خارجی سطح مقدم نہیں رہتے ۔ مجھے تو یہ لفظ انسانی وجود کی طرح دکھائی دیتے ہےں ‘مختلف بافتوں اور ساختوں کا مجموعہ۔ اگرچہ لفظ اپنے مجرد وجود کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوتا اور اس کا سارا وقار اس میں پنہاں اس کے معنی کے سبب ہوتا ہے مگر اس مغالطے کو بھی رفع کرنا لازم ہے کہ اس سے مراد محض وہ معنی ہیں ہی نہیں جو وہ جو لغت میں درج ہیں‘ نہ وہ معنی مراد ہیں جو جملے کی عمومی ترتیب بدل دینے سے اس میں آ جاتے ہیں‘جو عصری حسیت اس میں ڈال دیتی ہے یا پھر جو قاری کا بدلتا شعور اس سے برآمد کرتا رہتا ہے۔میں تو تخلیقی عمل کے دوران کے امکانی معنوں کی بات کر رہا ہوں جو ایک تخلیق کار کی دسترس میں تب آتے ہیں جب وہ خیر اور سچائی کے جذبے کے ساتھ تخلیقی عمل کے پراسرار علاقے میں اندر تک گھس جاتا ہے۔تخلیق کے اندر امیج بننے کے عمل کو بصریاتی عمل کے مقابل رکھ کر دیکھیں تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ بصریات میں یہ انعکاس یا انعطاف کا کرشمہ ہوتا ہے مگر اَدبی مَتن میںمحاکات فوری یا حقیقی مفہوم کی سطوح سے بے نیاز قدرے کشادہ ‘گہرے اور افقی لاشعوری علاقے میں پہنچ جاتے ہیں ۔ میں اپنے تخلیقی تجربے اور ادبی تاریخ کو سامنے رکھ بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ تخلیق عمل کے دورانیے میں فرد کا ذاتی جوہر مقدم رہتا ہے باقی سارے خارجی سہارے پسپا ہو جاتے ہیں ۔
س: آپ کی تخلیقات کا بنیادی محور آپ کی نظر میں کیا ہے ؟
محمد حمید شاہد: صاحب ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ مدت ہوئی خدا‘انسان اور کائنات کی مثلث تو کب کی ٹوٹ چکی ۔اور اصرار کیا جاتا ہے کہ وہ جو ژاں پال سارتر نے تصور خدا کے باب میں جوہر کو وجود پر مقدم بتایا تھااب اسے مان لیا گیا ہے ۔ اور یہ کہ وہ سب جھوٹے تھے جوانسان کو کائنات کے مرکز میں رکھتے تو اور انسان کے سینے میں اس عزم کوبسانا چاہتے تھے کہ وہ کائنات کو تسخیر کرے ۔ تخلیق اب تک اپنے آپ کو بڑی توپ سمجھتا رہا لسانی تھیوریوں نے اس کے پڑخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں ۔ اب صاف صاف کہا جارہا ہے کہ تخلیقی عمل کچھ بھی نہیں ہے لکھنے والا محض محرر ہوتا ہے عبارتوں کی تشکیل نو کرنے والا اور تحریر کے مکمل ہوتے ہی موت سے ہم کنار ہو جانے والا۔ کائنات کے بھی وہ معنی نہیں رہے جو تخلیقی عمل کو مہمیز لگاتے تھے یا لگا سکتے تھے اب یہ محض مادی حقیقت ہے گویا ایسا جسم جس میں روح ہیں ہے ۔ نظری مباحث کی اس دھول میں کہ جہاں خدا نہیں ہے‘ مصنف مر گیا ہے‘ تخلیق پارہ پہلے سے موجود متن کا عکس نو ہو گیا ہے‘ معنی بے دخل ہو چکے ہیں اور انسان اپنے منصب سے معزول ہو چکا ہے میرے جیسے تخلیق کا رکا ‘ جو کہ ان بنیادی اقدار سے ساتھ اپنے وجود کے پورے اخلاص کے ساتھ جڑا ہوا ہے ‘ اورکیا مقصد ہو سکتا ہے کہ تخلیقی عمل کو زندہ رکھا جائے ۔ میرے ہاں خدا موجود ہے اور اس کی خدائی بھی ۔ اور اس کی خدائی کے مرکز میں انسان موجود ہے اپنے پورے وقار کے ساتھ۔ میری نظر میں ہر نئی مگر خالص ادبی تخلیق پہلے سے موجود ادبی متون کا چربہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے توسیعی علاقہ فراہم کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو شعوری عمل سے بچ کر اور ایک بے خودی کے آہنگ میں رہ کر نئے معنی کی تلاش کو جمالیاتی ہمہ گیری کے وصف کے ساتھ ممکن بنانے کو ہی میں اپنی تخلیقات کا محور کہہ سکتا ہوں ۔
س:پاکستانی ادب میں مزاحمتی رویہ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ادب آغاز سے مزاحمتی رویہ لیے ہوئے ہے ؟
محمد حمید شاہد: میرا خیال ہے ‘ یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ادب اپنی نہاد میں ہوتا ہی مزاحمتی ہے۔ وہ مفاہمتی تو بالکل نہیں ہوتا اور اسٹیس کو بھی اس کے لیے مردود علاقہ ہے ۔ ہمارے ہاں کے ادب میں بھی یہ وصف مستقلاً موجود رہا ہے ۔ تاہم جب جب اس رویے کو نعرے لگا لگا کر بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ادب پارے کم اور مزاحمت پارے زیادہ تخلیق ہوئے ۔ مزاحمت پارے وجود میں لانے کا عمل خارجی محرکات سے جڑا ہوتا ہے جس کے دباﺅ میں تخلیقی عمل اپنے بھید بھرے علاقے میں پوری طرح متحرک نہیں ہوسکتا۔ جس صورت حال کے خلاف مزاحمت مقصود ہے اس کے خلاف نفرت کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بنالینے والے سچے تخلیق کار کو اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ اب وہ مزاحمتی ادب لکھنے جارہا ہے ۔
س : پاکستانی ادب کی مجموعی صورت حال کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟
محمد حمید شاہد: : میں پاکستانی ادب کی موجودہ صورت حال سے قطعاً مایوس نہیں ہوں ۔ رواں ربع صدی تک آتے آتے ادبی تخلیقات کے مزاج کا بدل جانا ادبی تاریخ کا انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے ۔ دیکھئے غزل کم کم تبدیلی کو قبول کرتی ہے مگر قدرے تازہ علامتوں‘نئے تلازموں اور جدید طرز احساس کے سبب غزل کو بھی کچھ کچھ نیا کہا جا سکتا ہے۔اس صنف کی اپنی مجبوریاں ہیں اور انہی مجبوریوں میں رہ کر ہی اس کے لیے مزید امکانات کی بابت سوچا جا سکتا ہے تاہم کتنی خوش آئند بات ہے کہ گذشتہ قریب ترین عرصے میں اگر ظفر اقبال منیر نیازی ‘شہزاد احمد‘پروین شاکر‘افتخار عارف ‘ریاض مجید‘ثروت حسین‘خالد احمد‘ سلیم کوثر‘جلیل عالی‘جمال احسانی‘سحر انصاری‘غلا م محمد قاصر‘غلام حسین ساجد سے لے کر خاور اعجاز‘صغیر ملال‘علی اکبر عباس‘ ثمینہ راجہ ‘ قیوم طاہر اور نجیب احمد جیسے کئی ناموں نے اپنے لئے جگہ بنا لی تھی‘تو گذشتہ کچھ عرصے میں عباس تابش‘رﺅف امیر‘طارق نعیم‘اصغر عابد‘ سعود عثمانی‘افضل گوہر‘ اختر شیخ‘ احمد حسین مجاہد‘عابد سیال‘شاہین عباس‘باقی احمد پوری‘ حسن کاظمی‘ اختر شمار‘ سلیم طاہر‘ حسین مجروح‘ ناصر بشیر‘ آفتاب جاوید‘ احمد نوید‘ اکبر معصوم‘ شہاب صفدر‘ اجمل سراج ‘غضنفر ہاشمی‘عثمان ناعم‘اخترعثمان‘ شوذب کاظمی اور ان جیسے کئی غزل گو اسی تگ وتاز میں مصروف ہیں۔ نئی نظم نے رواں ربع صدی تک آتے آتے عجب تیور دکھائے ہیں ۔ علی محمد فرشی‘ ابرار احمد‘ نصیر احمد ناصر‘ انوار فطرت‘ رفیق سندیلوی‘ وحید احمد‘ ذی شان ساحل‘ حارث خلیق‘یامین‘ پروین طاہر‘ روش ندیم‘ ابرار احمد‘ اقتدار جاوید‘جاوید انوراورمقصود وفا اور کئی دوسرے نظم گو شعراءنے کہ جن کے نام فوری طور پر ذہن میں نہیں آ رہے ‘ قابل قدر کام کیا ہے۔اردو ناول میں کم کام ہوا ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ شعبہ سرے سے نظر انداز ہو گیا ہو ۔ قرة العین حیدر‘انتظار حسین ‘عبداللہ حسین‘ممتاز مفتی‘جمیلہ ہاشمی اورانورسجاد سے لے کر فہیم اعظمی ‘انیس ناگی مستنصر حسین تارڑ‘انورسن رائے ‘فاروق خالد‘عاصم بٹ‘ ارشد چہال‘ وحید احمد تک جو کام ہوا ہے وہ ہماری نظر میں رہنا چاہیے۔ افسانے اردو ادب کی مقبول ترین نثری صنف کے طور پر لیا جاتا رہا ہے ۔ اس باب میں خالدہ حسین‘ منشایاد‘اسد محمد خان‘مظہرالاسلام ‘ رشید امجد اور ‘ مشرف احمدکے بعد والی نسل میں کئی جو افسانہ نگار سامنے آئے ہیں۔ فہمیدہ ریاض ‘شبنم شکیل اور فاطمہ حسن کومیں افسانے کے حوالے سے نئی لکھنے والیاں کہوں گا کہ یہ سب اسی دورانئے میں شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھنے لگی ہیں ۔آصف فرخی ‘ انور زاہدی‘مبین مرزا ‘ جمیل احمد عدیل‘ نیلم احمد بشیر‘ بشریٰ اعجاز‘نیلوفر اقبال‘ شبانہ حبیب‘شعیب خالق‘ عرفان احمد عرفی‘ شہناز شورو‘طاہرہ اقبال‘ امجد طفیل‘عاصم بٹ‘ رفاقت حیات‘ فرحین چوہدری ‘سلیم آغاقزلباش‘نگہت سلیم‘فرخندہ شمیم‘ فرحت پروین‘حفیظ خان‘ محمد الیاس‘ حامد سراج‘ یعقوب شاہ غرشین‘ عابدہ تقی‘حمید قیصر‘ لبابہ عباس‘ سمیرا نقوی اور غافر شہزاد کے افسانے ادبی جرائد میں پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔یوں لگتا ہے جیسے افسانے کے ساتھ دلچسپی پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے ۔ افسانے کا وہ چلن جس میں کہانی بینٹھی کی طرح دونوں جانب سے روشن ہوتی ہے مسقبل کا چلن بن گیا ہے ۔ باہر سے مکمل مربوط اورمرصوص اور اس کے اندر سے زیادہ گہرے وسیع معنی کا دھارا امنڈتا ہوا۔تنقید کے میدان میں بھی امید بندھ گئی ہے ایک زمانہ اگر حسن عسکری‘مولانا صلاح الدین احمد‘ کلیم الدین احمد‘ سے لے کروزیر آغا جیسے لوگوں سے موسوم تھا تو آجکل سید مظہر جمیل‘ شاہین مفتی‘تحسین فراقی‘ناصر عباس نیر‘آصف فرخی‘امجد طفیل ‘ضیاالحسن‘ مبین مرزا زاہد منیر عامر‘روف پاریکھ‘روش ندیم‘ پروین طاہر‘ رفیق سندیلوی‘ عقیلہ بشیر وغیرہ اس باب میں قابل ذکر کام کر رہے ہیں ۔ نثم ہو یاانشائیہ ‘ یاد نگاری‘خاکے‘ ماہیئے اور ہائیکو جیسی اصناف میں بھی کام کرنے والے اپنی دھج سے جتے ہوئے ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ تخلیق کھوکھلے نعروں کی جبریت سے آزاد ہوکر فن کے جوہر سے قریب ہوئی۔ یہ جو فنا اور بقا یا پھر کائنات اور ابدیت کو ایک ساتھ دیکھنے کا عمل ہے اس نے آج کے ادب کو زیادہ گہرائی ‘گیرائی اور لپک دے دی ہے۔ آج کی کہانی اور نظم کے حوالے سے تو میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے آپ دنیا کے کسی بھی ادب کے مقابلے کا بلکہ کہیں کہیں تو آگے نکلتا ہوا پائیں گے
۔س: پاکستان میں کتاب کی صورت حال (اشاعت اور قارئین)؟
محمد حمید شاہد: ایک بات تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پہلے کے مقابلے اب کتاب زیادہ چھپ رہی ہے ۔ ادب کے ساتھ ہمیشہ سے یہ معاملہ رہا ہے کہ اسے باذوق قارئین ہی میسر آتے رہے ہیں ۔ یہ انہی کا مسئلہ رہا ہے ۔ تاہم جب سے مارکیٹ اکانومی اور گلوبلائزیشن کا طوطی بولنے لگا ہے دوسری تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ ادبی اقدار اور اس کے مظاہر بھی دباﺅ کا شکار ہوئے ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ خود انسان اور انسانیت پر بھی کڑا وقت آن پڑا ہے ۔ اب جب کہ پیداوار کے منابع پر قبضے کے لیے انسان کو تھوک کے حساب سے تہہ تیغ کرنا جائز ہو گیا ہے اور نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں اس علاقے کے تہذیبی مظاہر اور اخلاقی اقدار کو رجعت پسندی گردان کر جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر حربہ آزمایا جانے لگا ہے تو ایسے میں بے چاری کتاب اور اس کا قاری کیا کرے گا ۔ پوری دنیا میںورچوئیل رئیلٹی کی زد میں ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کا انفامیشن گاربیج نے انسان سے اس کی آزادی کی خواہش چھین کر اس کے اندر زیادہ آسائشوں کے حصول کی تاہنگ رکھ دی ہے۔ تاہم میں نے ایک بار کہا تھا کہ یہ نیا رجحان نئی دلہن کی طرح جو پہلے پہل اچھی لگتی ہے ۔ نئے پن کا میک اپ جوں ہی اترے گا کتاب پھر راج کرے گی کہ دیکھے اور سنے ہوئے لفظ سے کہیں زیادہ قوت اس لفظ میں ہوتی ہے جو لکھا ہوا ہوتا ہے۔
س: آپ کی زندگی کا سفر؟
محمد حمید شاہد: میں پنڈی گھیب میں پیدا ہوا ۔وہیں ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی ۔پھر فیصل آباد آگیا۔زرعی یونیورسٹی سے بقول سید ضمیر جعفری مرحوم زراعت اور بستانیت کا فاضل ہوا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونورسٹی لاہور میں ایف ای ایل کا سٹوڈنٹ بھی ہوا مگر آغاز ہی میں یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کہ والد صاحب شدید علیل تھے۔واپس پنڈی گھیب آ گیا۔والد صاحب کا انتقال ہو گیا توبنک جوائن کر لیا۔ پیشہ ورانہ تعلیم کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا ۔بنکنگ ڈپلومہ کاا متحان اور کچھ کمپیوٹر کورسسز‘ یہ تعلیم کا سلسلہ تو ایسا ہے کہ ہمیشہ جاری رہتا ہے ‘سو جاری ہے۔جہاں تک ادبی مصروفیات کا تعلق ہے تو بتاتا چلوں کہ میرے لٹریچر کے قریب ترآنے کا دورانیہ وہی بنتا ہے جب میں فیصل آباد میں تھا۔ وہاںکے ادبی حلقوں کی نشستوں اور باذوق احباب کی صحبت کے سبب میرے خون میں ادبی جراثیم داخل ہوگئے۔ پڑھنے کی طرف تو میں پہلے ہی راغب تھاتاہم ادب کی باقاعدہ اصناف کی طرف رغبت یہیں آ کر بڑھی۔وہیں میں نے پہلی کتاب مکمل کی‘ پہلا انشائیہ لکھااورپہلا افسانہ شائع ہوا۔اب صورتحال یہ ہے کہ بہت سا وقت حسبِ سابق مطالعہ لے لیتا ہے۔افسانہ میری مرغوب صنف ہے ‘ تنقید اور تراجم بھی توجہ کھینچتے رہتے ہیں ۔
س: اردو افسانے کا معیار اور ارتقا؟
محمد حمید شاہد: صاحب‘ اردو افسانے کو ایک صدی سے بھی زائد عرصہ ہوگیا ہے ۔ عین آغاز میں ہی اَفسانے کے تیور دیکھنے کے لائق تھے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اَفسانہ قصے کہانی کی روایت کے بجائے اپنے بیانیے ‘ اسلوب اور اپنی حسوں کو مغربی روایت کے زیر اثر رواں منظر نامے سے اُٹھا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اَفسانے کی روایت اس ہند مسلم تہذیب سے جڑ گئی اور اَفسانہ یہاں کی مخصوص بو باس اور مابعد الطبیعیاتی اِسرار کے اندر یوں پھلا پھولا کہ ہم اسے بجا طور پر عالمی فکشن کے مقابلے میں معنوی اور جمالیاتی سطح پرکہیں تو ساتھ کھڑے پاتے ہیں اور کہیں اس سے آگے زقند بھرتے پاتے ہیں ‘مشرق کی اسی دھند اور اسرار کے سبب جس طرف مغرب کا تخلیق کار بار بار لپکتا ہے اور اس اسلوب کے سبب جو ہم نے ان سے اُچک لیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو میری تازہ کتاب ”اردو افسانہ : صورت معنی “ کا حصہ ہے یہاں اس کا محل نہیں تاہم میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اردو افسانے کا ایک صدی کا سفر اپنے معیار اور ارتقا کے اعتبار سے دوصدیوں کےسفر پر بھی بھاری ہو گیا ہے۔


س: آپ کی کتابیں ؟ کب اور کون کون سی شائع ہوئیں؟
محمد حمید شاہد : اب تک شائع ہونے والی کتب کی تفصیل,
افسانے,
بند آنکھوں سے پرے,جنم جہنم , مرگ زار,
تنقید
ادبی تنازعات, اشفاق احمد:شخصیت و فن( تدوین),اردو افسانہ : صورت و معنی
, کچھ اور کتابیں
پیکر جمیل(سیرت النبی), لمحوں کا لمس(نثمیں) ,الف سے اٹکھیلیاں(طنزیے), سمندر اور سمندر(بین الاقوامی شاعری کے اردو تراجم), منتخب ادب طور شریک مرتب (پاکستانی ادب)انتخاب برائے۲۰۰۲ سارک ممالک:منتخب تخلیقی ادب آٹھ اکتوبر:تحریر کے آئینے میں

No comments:

Post a Comment