Saturday, February 28, 2009

حامد سراج : مکالمہ

لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑرہاہے۔

تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا؟


افسانہ نگار‘ناول نگار اور نقادمحمد حمید شاہد کا حامد سراج سے مکالمہ

سوال: ”برف کا گھونسلا“ آپ کے افسانوں کے مجموعہ کا پہلا افسانہ ہے۔” بند آنکھوں سے پرے“ اور” جنم جہنم“ سے لے کر ” مرگ زار“ تک آپ نے افسانے کی صنف میں متعدد نئے تجربات کےے ۔ کیا کہیں گے آپ ‘ یہ تجربات کیسے رہے ؟ قاری اور نقاد نے انہیں کس آنکھ سے دیکھا ؟
محمد حمید شاہد: بھئی قاری اور نقاد کا نقطہ نظر تو قاری اور نقاد سے پوچھو۔ جہاں تک میرا معاملہ ہے میں اسے ایک سچے تخلیق کار کا فریضہ گردانتا ہوں کہ وہ تخلیقی عمل کے دوران پامال راستوں سے بچ نکلنے کے جتن کرے ۔ اصولی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ جو فن پارہ پہلے سے موجود تخلیقی سرمائے سے کسی حد تک مختلف نہیں ہوتااس کا جواز تخلیق پارے کے حوالے سے فراہم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر نئے کامیاب افسانے کے عناصر اسی موضوع کے کسی بھی دوسرے افسانے سے مختلف ہو جاتے ہیں ۔ ہر تخلیقی کہانی میں ہیئت اور مواد کا امتزاج الگ ہوجاتا ہے ۔ زبان میں لطیف سطح پر تبدیلی لائی جاتی ہے ۔ کہیں احساس کو موضوع کی سطح پر برتا جاتا ہے اور کہیں موضوع احساس بن جاتا ہے ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح زبان کا ایک طرح کا استعمال زبان کو بوسیدگی کی سطح پر لے آتا ہے اسی طرح ایک ہی ڈھنگ سے کہانی کہنے کا چلن اس کے اندر سے تازگی کو ختم کر دیتا ہے ۔ شاید اسی احساس کے تحت میں ہربار کہانی کے مقابل ایک نئے ڈھنگ سے ہوتا رہا ہوں اور میں نے ان نام نہاد اسلوب ماروں کا چلن اختیار نہیں کیا جن کے ہاں اسلوب تو قائم ہو گیا تھا مگر کہانی اور اس کا بیانیہ رخصت ہوگیا تھا۔
سوال : اردو افسانہ کہیں زوال کا شکار تو نہیں ۔۔۔ ؟
محمد حمید شاہد: حامد سراج تم خود کہانی لکھ رہے ہو ‘ تم نے ”ڈنگ “جیسی کہانی اسی عہد زوال میں لکھی ہے ۔ ”سورگ میں سور“ سے لے کر مرگ زارتک اور وہ ساری کہانیاں جن کا تم میرے حوالے سے ذکر کرتے ہویہ بھی میرے قلم سے اسی عہد میں ٹپکی ہیں ۔ آصف فرخی کی ”پاڈا“ اور ”واچوڑے کی واٹ“ زاہدہ حنا کی ”کم کم بہت آرام سے ہے“ اسلم سراج کی ”سمر سامر “ نیلوفر اقبال کی ”برف“ امجد طفیل کی ”مچھلیاں شکار کرتی ہیں “ اور کھینچے ہے مجھے کفر‘فرحت پروین کی ”سکنک“طاہرہ اقبال کی” دیسوں میں“عاصم بٹ کی ”دستک“مبین مرزا کی ”گمشدہ لوگ “ خالد جاوید کی ”تفریح میں ایک دوپہر“اور وہ ساری کہانیاں جو اس سے پہلی والی نسل کے افسانہ نگاروں نے اس عہد میں کہانی کے ٹوٹے ہوئے خارج کو پھر سے سلامت کرکے لکھیں کیا عجب نہیں ہے کہ وہ بھی اسی عہد زوال میں پھر سے افسانے کے قاری کا اعتبار پا رہی ہیں ۔ حامدپیارے ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ تخلیقی طور پر ہانپنے لگتے ہیں انہیں ہر کہیں سے زوال ہی زوال دکھنے لگتا ہے۔ ورنہ معاملہ یہ ہے کہ
یہی وہ عہد بنتا ہے جس میں بانجھ علامتوں کو لائق اعتنا نہ جانا گیا ‘ مجرد روایت پرستی سے منھ موڑا گیا‘ سیاسی نعرے بازی کو بھی جھنڈی دکھادی گئی اور اصل تخلیقی اسرار کے محرکات سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی گئی۔ میںپہلے بھی اسے نشان زد کر چکا ہوں کہ جدید ترتخلیق کاروں کی تخلیقات سے نہ تو کافور کے ہُلے اُٹھتے ہیں اور نہ ہی ان کے حلقوم سے نعرے نکل کر حلکم ڈالتے ہیں۔ آج کی تخلیقات نہ تو کسی خاص نظریے کی باجگزار ہیں نہ مسلط افکار کی پرچارک۔ لمحہ لمحہ اپنی تجدید کرتے اسرار سے وابستہ رہنے کا ادرا ک آج کی تخلیقات میں روح بن کر دوڑنے لگا ہے جس کے سبب وہ ماقبل کے اَدبی متون سے یکسر مختلف ہو گئی ہیں۔ تخلیق کی آزادی کا یہ چلن پہلے کہاں ممکن تھا۔

سوال : کیا افسانے میں علامت کا دور لد گیا ‘ ےا جب بھی کوئی آہن گر آئے گا تو اس کی ضرورت محسوس ہو گی‘ مراد یہ ہے کہ کیا علامت کے لےے معاشرے میں جبر اور گھٹن کا ہو نا گزیر ہے ۔؟
محمد حمید شاہد: کہانی نے کسی بھی عہد میں علامت بن جانے سے انکار نہیں کیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر کامیاب افسانہ اپنی کل میں ایک علامت بن جایا کرتی ہے ۔ رہ گئی یہ دلیل کہ گھٹن کے دور میں ہی کہانی علامت کا سہارا لیا کرتی ہے‘ بہت کمزور دلیل ہے ۔ دراصل علامت کے فیشن کا زمانہ لدتے وہ افسانہ نگار جو صبح وشام افسانے جنم دیا کرتے تھے انہیں اب کچھ سوجھ نہیں رہا تو وہ نئے وقت کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں ایسے میں انہیں گزرا ہوا وقت ہی اچھا لگتا ہے جب رنگ برنگی علامتوں کے کنکووں سے تخلیق کی دھنگ چھوڑتے آسمان کو ڈھک لیا کرتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے پیارے کہ جب بھی اور جہاں تخلیق کے پروسس کو خارجی صورت حال کے حوالے کردیا گیا جیسا کہ ترقی پسندوں نے کیا تھا یا اسے ایک فیشن بنالیا گیا جس طرح کہ علامت نگاروں اور تجرید کاروں کے ہاں ہوا تو اس زمانے میں ادب ہلا گلا تو خوب مچتا ہے بچ جانے والا ادب کم کم ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا زمانے میں بھی کچھ سخت جان تخلیق کار ایسے ہوتے ہیں جو بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ان کے بچ نکلنے کی وجہ نہ تو ان کی ترقی پسندی رہی ہے نہ علامت کاری کا چلن یہ تخلیق کے ساتھ وابستگی ہی ہے جو انہیں معتبر بنا گئی ہے۔ اب رہ گیا سوال کا یہ حصہ کہ کیا پھر علامت کا دور آئے گا۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ علامت نگاری کو فیشن کی سطح پر لے آنے والا زمانہ پھر نہیں آسکتا تاہم میری خواہش ہو گی کہ ایسا زمانہ نہ آئے تو ہی تخلیق کے حق میں بہتر رہے گا۔ مدت بعدکہانی کا خارج سالم ہوا اور اس کے بھیتر میں کہانی کا بھید پوری سما گیا ہے ۔ علامت افسانے کے اوپر بھدی عورت کے بھاری اور شوخ میک اپ کی صورت نہیں لیپی جارہی اسے تخلیقی سطح پر متن کے اندر سما جانے کا موقع دیا جارہا ہے ۔ یہی دھیما مزاج تخلیق کار اور تخلیق دونوں کے حق میں بہتر ہے۔
سوال : ہمارے نقاد ا ور ادیب ہر صنفِ سخن کا موازنہ مغرب سے کیوں کرتے ہیں ۔۔۔؟ کیا ہم تخلیقی سطح پر بانجھ ہیں ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: موازنہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں تاہم کرنا یہ ہوگا کہ تہذیبی سطح پر ان نشانات کو سمجھ لیا جائے جو تخلیق پاروں کے جوہر اور روح کو بدل کر رکھ دیا کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ فی الاصل تخلیقی عمل ایک تہذیبی مظہر بھی ہے ۔ یہ فیشن میں کچھ لکھ لینے سے وجود میں نہیں آتا ہے بل کہ باطنی کائنات کی وسعتوں کو سمیٹ لینے اور ان وسعتوں کے اندر موجزن معنیاتی طلسم کے نور دھاروں تک رسائی پانے کے بعد اپنی صورت بناتا ہے ۔ مرعوب نقالوں اور اندھے مقلدوں پرتخلیقی توفیق کے دروازے بند ہوتے ہیں ۔ تو بھائی چاہے تنقید ہو یا تخلیقی اپنی تہذیبی سرشت سے کٹ کر اس سے جب بھی معاملہ کریں گے ٹھوکر کھائیں گے ۔ تہذیبیں ایک دوسرے سے لین دین کیا کرتی ہیں اس پر نہ مجھے اعتراض ہے نہ کوئی اور ذی ہوش معترض ہوگا بس دکھ اس وقت ہوتا ہے جب ادھر کی بات ہوتی ہے تو سو گز پھاڑے جاتے ہیں اور اپنی بات ہوتی ہے کچھ وارنے کو بچتا ہی نہیں ہے ۔

سوال : آپ کی تخلیقات کی تعداد اور سنین ۔۔۔؟کہ کل کو آپ پر تحقیق ہو تو وہ سمت نما ثابت ہوں
محمد حمید شاہد: جی‘ میرے افسانوں کے اب تک تین مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ پہلا ”بند آنکھوں سے پرے“ ۴۹۹۱ءمیں ”الحمد “لا ہور سے‘ دوسرا ”جنم جہنم“ ۸۹۹۱ءمیں ”استعارہ “ اسلام آباد اور تیسرا”مرگ زار“ ۴۰۰۲ءمیں ”اکادمی بازیافت“ کراچی سے۔ اس کے علاوہ ایک ناول ” مٹی آدم کھاتی ہے“ شائع ہو چکا ہے ۔ جب کہ دوسرا ناول زیر تکمیل ہے۔تنقید کی پہلی کتاب ”ادبی تنازعات “ تھی جو ۰۰۰۲ میں حرف اکادمی راول پنڈی نے چھاپی جب کے افسانے کی تنقید پر کتاب”اردو افسانہ ‘صورت و معنی“ ۶۰۰۲ میں نیشنل بک فاﺅنڈیشن نے چھاپی۔ دوسرے موضوعات کی کتب میں ‘ ”سمندر اور سمندر“” لمحوں کا لمس“”اشفاق احمد شخصیت اور فن “ وغیرہ شامل ہیں۔

سوال : آپ کا ناول کا تجربہ کیسا رہا ۔۔۔؟
محمد حمید شاہد: ”مٹی آدم کھاتی ہے “ کا تجربہ میرے لیے یوں بہت اہم ہے کہ اسے غیر معمولی پذیرائی ملی ۔ ہمارے ہاں ناول کے بیانیے کو چست رکھنے کا چلن نہیں ہے اس ناول میں اس کی صورت سجھائی گئی ہے ۔ غیر ضروری تفصیلات سے اجتناب برتا گیا ہے اور قاری کو کہانی سے وابستہ رکھنے کے لیے متن پر مرحلہ وار معنیاتی اکتشاف کو روا رکھا گیا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول کی کامیابی کو اس کے بیانیہ کا اعجاز قرار دیا ہے اور یہ بھی کہ اس میں رومان اور تشدد کو یکجا کردیا گیا ہے ۔ مجھے فاروقی صاحب کی یہ بات بھی بہت حوصلہ دے گئی ہے کہ انہیں اس خاکسار کے ہاں ایسے موضوعات مل جاتے ہیں جن کے بارے میں زیادہ تر لکھنے والے گومگو میں مبتلا ہیں کہ فکشن کی سطح پر ان سے کیا معاملہ کیا جائے ۔ ظفر اقبال ایسے تخلیق کار ہیں جو میرے تنقیدی خیالات پر اکثر برہم نظر آتے ہیں تاہم اس ناول کے کردار انہیں بھی بہت اچھے لگے ہیں ۔ فتح محمد ملک ہوں یا افتخار عارف ‘ علی محمد فرشی ہوں یا ابرار احمد سب نے اسے کامیاب تجربہ کہہ کر میرا خوب حوصلہ بڑھایا ہے ۔

سوال: دہشت کے اس زمانے میں کیا کہانی کے تقاضے بدل نہیں گئے؟

محمد حمید شاہد: جی ہاں بدل گئے ہیں ۔ اور اگر دہشت کا یہ زمانہ نہ آیا ہوتا تو بھی کہانی کو بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ کچھ نہ کچھ تو بدل جانا ہی ہوتا۔ مان لینا ہوگا کہ تخلیقی تجربہ عین مین وراثت میں نہیں ملا کرتا۔روایت سیدھی لکیر نہیں ہوتی کہ اسے ہی پیٹتے چلے جائیں ۔ ادبی روایت میں تبدیلی ‘ کانٹ چھانٹ اور اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ اسی کاٹ پھانس نے کہانی کا چلن متعین کرنا ہے ۔ کہانی کے بارے میں میں کہتا آیا ہوں کہ یہ زندگی کی تخلیق نو کا نام ہے۔ زندگی جستجو اور بقا کانام بھی کہانی ہے ۔ زندگی سانسوں کا آہنگ ہوتا ہے ۔ یہ آہنگ کہانی پورے معاشرے میں تلاش کرتی ہے۔ پہلے معاشرہ بہت پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ پھیلا ہوا اور آپس میں گتھا ہوا ۔ تب دکھ سکھ ان معاشروں کی اندر سے پھوٹتے تھے اور سانجھے ہوتے تھے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے ۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں ‘ ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں ۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دکھوں سے کہیں بڑے دکھ باہر سے آتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار جس پر اس کی سیدھی باڑھ پڑتی ہے ‘وہ اسے اپنے تخلیقی تجربے سے الگ کیسے رکھ سکتا ہے؟اس کی حسیں کیوں کر معطل رہ سکتی ہیں؟ اس کا تجربہ اور اس کا مشاہدہ کیسے اس منظرنامے سے غیر متعلق ہوسکتا ۔ لہذادہشت کے اس موسم میں کہانی کا چلن ویساہو ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ ٹھہری ہوئی اور جمی جمائی زندگی میں ہوتا ہے۔ ایک تدبیر تو یہ ہے کہ کہانی لکھنے والا اس سارے عرصے میں الگ تھلگ پڑا اپنی حسوں کو معطل رکھے۔ یہ طرز عمل یقینا ایک سچے تخلیق کار کے ضمیر پر بوجھ بن جائے گا۔ لہذا اپنے ضمیر اور تخلیق دونوں سے وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر بدلی ہوئی کہانی لکھ کر اپنے اور اپنے تخلیقی تجربے کے زندہ ہونے‘ اور زندگی سے جڑنے کا ثبوت فراہم کیاجائے تو یوں ہے کہ سچے تخلیق کاروں نے نئے عہدکے چیلنج کو سمجھا ہے اور دل کڑا کرکے اپنے تخلیقی تجربے کو عصری حسیت سے جوڑدیاہے ۔

No comments:

Post a Comment